عیسائی گورنر پیلاطوس کی شہادت
حضرت موسیٰؑ کی قیادت میں ہزاروں بنی اسرائیل عازم فلسطین ہوئے۔ راستہ میں آپؑ کی وفات ہوگئی اور آپؑ کو موآب میں دفن کیا گیا اور آپؑ کے خلیفہ حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں یہ قافلہ فلسطین پر قابض ہوا۔ پھر 378 سالہ دور میں یہودی سلطنت نشیب و فراز سے دوچار رہی اور پھر حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ کا زریں عہد آگیا۔ حضرت سلیمانؑ کی وفات پر آپؑ کا نافرمان بیٹا رحبعام برسراقتدار آیا تو سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا اور دس قبائل کی بغاوت کے ساتھ ملک دو حکومتوں شمالی اور جنوبی میں تقسیم ہوگیا۔ دو سو سال بعد شمالی سلطنت اسوریوں کے ہاتھوں تباہ ہوگئی۔ پھر ڈیڑھ صدی بعد بابل کے بادشاہ نبوکد نضر نے جنوبی سلطنت کو بھی تاخت و تاراج کردیا اور اہم یہود کو گرفتار کرکے بابل لے گیا۔ قریباً نصف صدی کے بعد شاہ فارس خورس نے بابلیوں کو شکست دے کر فلسطین پر قبضہ کرلیا۔ پھر دو سو سال بعد سکندر اعظم نے فارسیوں کو شکست دی اور فلسطین پر یونانیوں کا قبضہ ہوگیا۔ سکندراعظم کی وفات کے بعد یہود پر مختلف خاندان حکمران رہے اور آخر 63ق م میں رومیوں نے فلسطین پر قبضہ کرلیا اور پہلے ایک مقامی رومی خاندان کو وہاں کا حاکم مقرر کیا۔ جب اس خاندان نے اپنے رومی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے یہود پر مظالم کے پہاڑ توڑے تو روم کے شہنشاہ نے یہود کا صوبہ براہ راست رومی گورنر کے ماتحت کردیا۔ حضرت مسیحؑ کی پیدائش کے وقت روم کا بادشاہ قیصر اغسطس تھا اور واقعہ صلیب کے وقت ٹائبرس بادشاہ کی حکومت تھی جبکہ فلسطین کے ایک صوبہ کا گورنر پینطیس پیلاطوس تھا۔
پیلاطوس کی جائے پیدائش نامعلوم ہے ۔ بالعموم اس گورنر کا کوئی ذکر رومی تاریخ میں نہیں ہے تاہم صرف ایک رومی مؤرخ Tacitus نے واقعہ صلیب کے ضمن میں پیلاطوس کا ذکر کیا ہے۔ پیلاطوس یہودیہ، سمرنا اور ادومیہ کا دس سال تک گورنر رہا۔ وہ مکمل بااختیار حاکم تھا۔ وہ کسی کی موت کا پروانہ جاری کر سکتا تھا اور سزائے موت پانے والے کو رہا کر سکتا تھا۔یہود کی عدالتِ عالیہ کے فیصلوں کو تبدیل کرنے کا مجاز تھا۔ ہیکل کے خزانے اُس کے پاس جمع ہوتے تھے۔ سردار کاہن اُس کی مرضی سے چنا جاتا تھا۔ اُس کے پاس پانچ ہزار فوج تھی جو قیصریہ کی چھاؤنی میں متعین تھی۔
یہود بالعموم پیلاطوس کو ایک ظالم حاکم کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یروشلم کے رواج کے مطابق فوج شہر میں قیصر کی تصویر والے جھنڈے استعمال نہیں کرتی تھی تاکہ یہود کی دلشکنی نہ ہو۔ لیکن پیلاطوس نے اس رعایت کو ختم کردیا۔ دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ پیلاطوس کے حکم پر ہیکل کے لئے جمع شدہ چندہ کی رقم میں سے ایک نالی کی تعمیر کروائی گئی جس پر یہود بہت سیخ پا ہوئے لیکن پیلاطوس نے بغیر وردی کے سپاہی بھیج کر احتجاجی جلوس کو منتشر کروادیا۔ اسی طرح ایک واقعہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ سامری ایک دفعہ کوہ گرزیم پر اس مقصد کے لئے جمع ہوئے کہ حضرت موسیٰؑ کی مدفون ہڈیاں تلاش کی جائیں مگر پیلاطوس نے فوجی دستہ بھیج کر انہیں کچل دیا۔
یہ تصویر کا ایک رُخ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پیلاطوس ایک بااصول حکمران تھا جو اپنے فرائض کو پہچانتا تھا اور یہود سے اچھے تعلقات قائم کرنے کا بھی خواہاں تھا۔ چنانچہ مرقس میں بیان ہے کہ وہ عید پر ایک قیدی کو جس کے لئے لوگ عرض کرتے چھوڑ دیا کرتا تھا۔
تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ پیلاطوس پر حضرت مسیحؑ کی صداقت آشکار ہوچکی تھی اور وہ اور اُس کی بیوی در پردہ آپؑ پر ایمان لاچکے تھے۔ چنانچہ جب وہ تخت عدالت پر بیٹھا تو اُس کی بیوی نے اُسے پیغام بھیجا کہ ’’تُو اس راستباز سے کچھ کام نہ رکھو‘‘۔ چنانچہ انجیل یوحنا میں بالخصوص اور دیگر اناجیل میں عموماً پیلاطوس کی بار بار کوششوں کا ذکر ہے جو اس نے یہود کو اس بات پر آمادہ کرنے کے لئے کیں کہ وہ حضرت مسیحؑ کو صلیب دینے سے باز رہیں۔ لیکن جب یہود اپنے بدارادہ سے ذرہ بھر پیچھے نہ ہٹے تو پیلاطوس نے حضرت مسیحؑ کے ایک پیروکار یوسف آرمینیہ اور حکیم نیکودیمس کے ساتھ مل کر یہ منصوبہ بنایا کہ کچھ عرصہ کے لئے حضرت مسیحؑ کو صلیب پر لٹکا دیا جائے مگر خیال رکھا جائے کہ آپؑ مرنے نہ پائیں۔ چنانچہ اُس نے عمداً مقدمہ کو طول دیا اور جمعہ کی سہ پہر آپؑ کو صلیب پر لٹکادیا گیا۔ کچھ ہی دیر میں اندھیرا چھا گیا اور ایسا معلوم ہوا گویا غروب آفتاب ہوگیا ہے۔ چنانچہ یہود نے سمجھ لیا کہ سبت کے دن کا آغاز ہوچکا ہے اور اُنکی شریعت کے مطابق حضرت مسیحؑ کو صلیب سے اتار لیا گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ صرف دو تین گھنٹے ہی صلیب پر رہے۔
پیلاطوس نے صلیب کی کارروائی نپٹانے کے لئے جس صوبہ دار اور سپاہیوں کو مقرر کیا، اُنہیں بھی ہدایات دی گئیں۔ چنانچہ جب اُسے یہ رپورٹ ملی کہ مسیح مر گیا ہے تو اُس نے تعجب کا اظہار کیا گویا اسے اپنے منصوبے کی ناکامی پر تعجب ہوا۔ لیکن جب صوبہ دار سے حقیقت حال معلوم ہوئی تو اپنی تسلّی کرلی اور لاش کو یوسف آرمینیہ کے حوالہ کردیا۔
جب مسیحؑ کو قبر میں رکھ کر اُن کا علاج شروع ہوا تو پیلاطوس نے یہود کی یہ درخواست ردّ کردی کہ قبر پر سرکاری پہرہ لگایا جائے۔ پھر پیلاطوس نے جو رپورٹ شاہ روم کو بھجوائی اُس کے آخر میں یہ ذکر کیا کہ واقعہ صلیب کے بعد جو زلزلہ آیا تھا جس میں مسیحؑ کے بہت سے مخالف یہود ہلاک کردئے گئے تھے، وہ زلزلہ دراصل خدا کا قہری نشان تھا۔
بالعموم یہودی اور عیسائی پیلاطوس کے انجام کو بھیانک شکل میں پیش کرتے ہیں۔ بعض کے نزدیک اُس نے خودکشی کرلی۔ دراصل سلطنت روما کے عیسائی ہونے کے بعد یہ خیال پیدا ہوا کہ بادشاہ کو اُس ظلم سے کسی طرح بچایا جائے جو مقدس مسیح پر ڈھایا گیا۔ اس کا آسان حل یہ نکالا گیا کہ سارے واقعہ کا ذمہ دار پیلاطوس کو ٹھہرا دیا گیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پیلاطوس اور اُس کی بیوی حضرت مسیحؑ کی مرید تھے اور حضرت مسیحؑ کو صلیبی موت سے بچانے کی خاطر پیلاطوس نے جو کچھ کیا، اُس کی پاداش میں اُسے قیصر روم کے حکم سے شہید کردیا گیا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’جب قیصر روم کو خبر ہوئی کہ اس کے گورنر پیلاطوس نے حیلہ جوئی سے مسیح کو اس سزا سے بچا لیا ہے کہ وہ صلیب پر مارا جائے اور روپوش کرکے کسی طرح فرار کردیا ہے۔ تو وہ بہت ناراض ہوا۔ اس مخبری کے بعد فی الفور پیلاطوس قیصر کے حکم سے جیل خانہ میں ڈالا گیا اور آخری نتیجہ یہ ہوا کہ جیل خانہ میں ہی اس کا سر کاٹا گیا اور اس طرح پر پیلاطوس مسیح کی محبت میں شہید ہوا۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین)
اگرچہ ایک عیسائی مؤرخ یوسی بی آس نے پیلاطوس کے خودکشی کرنے کا ذکر کیا ہے لیکن انسائیکلوپیڈیا پبلیکا کا مصنف ذکر کرتا ہے کہ غیرمروجہ اناجیل میں پیلاطوس اور اس کی بیوی کے بے قصور اور عیسائی ہونے کا ذکر بھی پایا جاتا ہے۔
1926ء میں The Lost Books of the Bible کے نام سے مختلف کتب کا مجموعہ شائع ہوا جس میں شامل ایک صحیفے میں لکھا ہے کہ جب گورنر مقدمہ کے سلسلہ میں بادشاہ کے سامنے پیش ہوا تو اُس نے حضرت مسیحؑ کا جبہ زیب تن کیا ہوا تھا۔
پروفیسر S.G.F.Brandon نے حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی کتاب The Trial of Jesus of Nozarth میں پیلاطوس کے کردار پر بحث کرتے ہوئے اُس کا بے قصور ہونا ثابت کیا۔ نیز لکھا کہ پیلاطوس پر مقدمہ چلایا گیا اور پھر اسکا سر کاٹ دیا گیا، بے شک اُس نے ایک راستباز اور خداپرست انسان کی حیثیت سے وفات پائی۔
فی زمانہ یہود بھی عیسائیوں سے بہتر تعلقات کی خاطر یہ تاثر دیتے ہیں کہ مسیحؑ کو صلیب دینے کا واقعہ رومنوں کے ذریعہ اور ان کے قوانین کے مطابق ہوا ہے۔ اس میں یہود کا ہاتھ نہیں ہے۔ چنانچہ یہود انسائیکلوپیڈیا میں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہود کی شریعت کی رو سے ارتداد کی سزا صلیب ہرگز نہیں ہے۔
آغاز عیسائیت میں لوگ پیلاطوس کو مسیح کا سچا پیروکار ہی نہیں بلکہ اپنے اولیاء میں شمار کرتے تھے چنانچہ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا میں لکھا ہے کہ ایبی سینیائی چرچ نے پیلاطوس کو اولیاء کی فہرست میں شامل کرلیا اور 25؍جون کو اُس کی یاد منائی جانے لگی۔ علاوہ ازیں اُس کی بیوی پروکلہ کو یونانی کلیسا کی طرف سے ولیہ (Saint) کا مقام دیا گیا اور اس کی یاد میں 27؍اکتوبر کا دن بطور تہوار منایا جانے لگا۔
یہی بات The Lost Books of the Bible کی کتاب The Death of Pilateکے تعارف میں بیان کی گئی ہے اور پیلاطوس کو ولی اور شہید قرار دیا گیا ہے۔
یہ تحقیقی مضمون مکرم نصیر احمد انجم صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’خالد‘‘ جنوری 1999ء میں شامل اشاعت ہے۔