غانا میں احمدیت کا آغاز

قریباً1870ء میں غانا کے ایک میتھوڈیسٹ پریسٹ بنجامین سام نے ایک شخص ابوبکر بن صدیق کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا اور قبولِ اسلام کے بعد وہ بن یامین کہلانے لگے۔ جلد ہی انہوں نے اپنے ایک قریبی دوست کو بھی مسلمان بنالیا جس کا اسلامی نام مہدی رکھا گیا۔ بن یامین نے اپنے علاقہ میں اسلام کے فروغ کیلئے بڑی محنت کی اور جلد ہی ایک بہت بڑی تعداد ان کے پیروکاروں میں شامل ہوگئی۔ یہ پیروکار پہلے پہل تو اپنے چیف بن یامین کے گھر پر ہی نمازیں ادا کرتے اور دیگر دینی امور میں راہنمائی حاصل کرتے تھے۔ لیکن جلد ہی انہوں نے زمین کا ایک بڑا ٹکڑا حاصل کرلیا تاکہ وہ آزادی سے اپنے چیف کے ساتھ اجتماعی عبادات بجا لاسکیں۔ چنانچہ اس اراضی پر ایک نئے قصبے Kuro-Fofor کی بنیاد ڈالی گئی۔ یہ قصبہ اب بھی Ekrawfo کے نام سے آباد ہے۔
1915ء میں بن یامین کی وفات کے بعد ان کے معتمد ساتھی مہدی اپاہ نے اس گروپ کی قیادت سنبھال لی۔ جنگ عظیم اول کے بعد چیف مہدی اپاہ کے ایک پیروکار یوسف نے خواب میں سفید رنگ کے بعض لوگوں کو اسلامی رنگ میں عبادت کرتے ہوئے دیکھا۔ جب یوسف نے اپنی خواب اپنے بزرگوں اور دوسرے لوگوں کو سنائی تو انہوں نے ایسے لوگوں کا پتہ چلانے کی کوشش کی جنہیں یوسف کی خواب میں اسلامی عبادات بجالاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
یوسف کے ایک دوست نے انہیں بتایا کہ اس قسم کے لوگ ہندوستان میں بھی رہتے ہیں۔ چنانچہ یوسف اور اس کے دوستوں نے ہندوستان میں رہنے والے بعض مذہبی لوگوں کے ساتھ خط و کتابت شروع کی۔ اس خط و کتابت کے نتیجہ میں ہندوستان کے ایک مذہبی اسلامی گروپ کی طرف سے چیف مہدی اپاہ کو بتایا گیا کہ اگر کرایہ کیلئے تین سو پاؤنڈ سٹرلنگ کا انتظام کردیا جائے تو انہیں دینی تعلیم دینے کیلئے ہندوستان سے ایک مبلغ بھجوایا جا سکتا ہے۔تین سو پاؤنڈ کی رقم ان دنوں میں معمولی رقم نہیں تھی چنانچہ چیف مہدی اپاہ اور ان کے مریدوں نے اپنی زمینیں اور قیمتی اشیاء گروی رکھ کر یہ رقم جمع کرکے ہندوستان بھیجی۔ اور پھر ایک لمبے انتظار کے بعد افریقہ کے لئے پہلے مبلغ احمدیت حضرت مولوی عبدالرحیم نیر صاحبؓ 1921ء میں سالٹ پانڈ کے ساحل پر اترے تو چیف مہدی اپاہ کی جانب سے بھجوائے ہوئے مقامی لوگ بھی آپؓ کے استقبال کے لئے وہاں پہنچے۔ اس طرح غانا میں پہلے احمدیہ مشن کا قیام عمل میں آیا۔ چیف مہدی اپاہ نے مترجم کے فرائض انجام دینے کے لئے اپنے ایک کزن بن یامین عیسیٰ کیلسون کو مقرر کیا جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے ہی اسلام قبول کیا تھا۔ گویا بن یامین عیسیٰ صاحب غانا میں احمدیہ مشن کے پہلے سیکرٹری تھے۔ آپ بعد ازاں جماعت احمدیہ غانا کے پہلے صدر بھی مقرر ہوئے اور نومبر 1960ء میں اپنی وفات تک اس عہدہ پر فائز رہے۔
حضرت مولوی عبدالرحیم نیر صاحبؓ سب سے پہلے چیف مہدی اپاہ اور انکے پیروکاروں کو تبلیغ کرکے مسیح موعودؑ کی غلامی میں لائے۔ چیف مہدی اپاہ نے حضرت مولوی صاحبؓ کی رہائش کا انتظام اپنے قصبہ کے قریبی بڑے شہر سالٹ پانڈ میں کروایا اور اس طرح سالٹ پانڈ میں غانا کا پہلا باقاعدہ احمدیہ مشن قائم ہوا۔ کچھ عرصہ بعد حضرت مولوی صاحبؓ کی جگہ حضرت حکیم فضل الرحمٰن صاحبؓ ، پھر حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحبؓ اور پھر حضرت مولوی نذیر احمد مبشر صاحب نے لے لی۔ اسی طرح غانا کے کئی افراد نے بھی نہایت اخلاص کے ساتھ اپنی خدمات احمدیہ مشن کے سپرد کردیں۔ 1926ء میں چیف مہدی اپاہ کی وفات ہوئی اور انہیں ان کے دوست بن یامین کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ اس طرح غانا میں احمدیت کا وہ بیج بویا گیا جو آج ایک تناور درخت بن چکا ہے۔
تاریخ احمدیت غانا کا یہ ورق جماعت احمدیہ غانا کے ماہنامہ ’’گائیڈینس‘‘ جون 1997ء میں شاملِ اشاعت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں