غانا میں خدمت خلق
مکرم ایم اے لطیف شاہد صاحب سابق ہیڈماسٹر احمدیہ سکول آسکورے (غانا) نے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍اگست 2003ء میں شامل اشاعت اپنے مضمون میں جماعت احمدیہ کی غانا میں خدمت خلق کے حوالہ سے ایک واقعہ بیان کیا ہے۔
غانا کا دارالحکومت اکراؔ ہے جو بحر اوقیانوس کے ساحل پر واقع ہے۔ دوسرا بڑا شہر کماسی ہے ۔ دونوں شہروں کے درمیان نیشنل ہائی وے ہے اور فاصلہ قریباً 160؍میل ہے۔ خط استوا پر ہونے کی وجہ سے غانا میں دن رات برابر رہتے ہیں۔ فجر کی نماز سارا سال صبح سوا پانچ بجے ہوتی ہے۔ سورج غروب ہونے کے فوراً بعد گہرا اندھیرا چھا جاتا ہے اور صبح بھی سورج نکلنے سے پہلے گہرا اندھیرا اور بعد میں فوراً روشنی ہوجاتی ہے۔ کماسی کے اردگرد بھی جماعت کے دو ہسپتال اور تین سیکنڈری سکول ہیں۔ پاکستانی سفارتخانہ اکرا میں ہے جہاں 1980ء سے 1983ء تک محترمہ مس سلمہ شوکت جان صاحبہ بطور سفیر متعین رہیں۔
1981-82ء میں غانا کی معاشی حالت بہت خراب تھی اور ضروریات زندگی خصوصاً ادویات کی شدید کمی تھی۔ 1982ء میں غانا کی مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے کماسی میں ایک کنونشن بلایا جس میں سارے مسلم ملکوں کے سفیروں کو مدعو کیا۔ غانا کے وزیرتعلیم نے بھی بطور مہمان خصوصی اس میں شمولیت کی حامی بھری۔ ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے بطور خاص خیال رکھا کہ کسی احمدی کو کنونشن میں شامل نہ کیا جائے۔ کنونشن سے ایک روز قبل پاکستانی سفیر اکرا سے کماسی کے لئے روانہ ہوئیں۔ کماسی سے کچھ فاصلہ پر سورج غروب ہوکر اندھیرا ہوچکا تھا۔ ان کا ڈرائیور کماسی سے دس میل کے فاصلہ پر واقع ایک تنگ اور خطرناک پُل کو نہ دیکھ سکا اور کار کو خوفناک حادثہ پیش آگیا جس کے نتیجہ میں اگلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے فرسٹ سیکرٹری کے سینے کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور پیچھے بیٹھی ہوئیں سفیر صاحبہ کا بازو بھی فریکچر ہوگیا۔ کنونشن کے منتظمین نے زخمیوں کو فوراً ایک ہسپتال میں منتقل کیا لیکن وہاں ادویات نایاب تھیں۔ آخر انہوں نے کماسی کے احمدی مبلغ مکرم حمید احمد ظفر صاحب سے رابطہ کیا جنہوں نے فوری طور پر احمدی ڈاکٹروں کو مطلع کیا اور ہم سب کا ایک وفد اگلے ہی روز سفیر صاحبہ کے پاس ہسپتال پہنچ گیا۔ وہ بہت حیران ہوئیں کیونکہ پاکستانی سفارتخانہ نے اُن کو بتایا ہوا تھا کہ کماسی میں صرف ایک پاکستانی ہے جو چمڑے کی فیکٹری میں کام کرتا ہے۔ پاکستان ڈاکٹروں اور اساتذہ کی یہاں موجودگی کے بارہ میں انہیں کوئی علم نہ تھا۔ بہرحال مکرم عبدالوہاب آدم صاحب امیر جماعت غانا کی کوشش سے سفیر صاحب کو ہیلی کاپٹر کے ذریعہ اکرا بھجوا دیا گیا جبکہ سیکرٹری صاحب کا علاج کماسی کے ہسپتال میں ہوتا رہا۔ اُن کی اہلیہ بھی کماسی تشریف لے آئیں اور ادویات اور طعام کا انتظام احمدی ہی کرتے رہے۔
محترمہ مس سلمہ شوکت جان صاحبہ علاج کے لئے پاکستان چلی گئیں۔ جب وہ واپس غانا آئیں تو جلد ہی انہوں نے اسکورے میں احمدیہ ہسپتال اور سکول کا دورہ کیا۔ وہ بہت خوش تھیں اور ان کا ارادہ تھا کہ سارے احمدیہ ہسپتالوں اور سکولوں کو خود جاکر دیکھیں گی۔ انہوں نے ہمیں اکراؔ بھی مدعو کیا اور کھیلوں کا بہت سا سامان بھی سکول کو تحفۃً دیا۔ وہ بہت شکوہ کرتی رہیں کہ سفارتخانہ کے سٹاف نے اُن کو اندھیرے میں رکھا۔ بعد میں جماعت سے تعلق کی بناء پر اُن کو جلد ہی پاکستان بلالیا گیا۔ چند سال بعد اُن کی وفات ہوگئی۔
دوسری طرف کنونشن میں اگرچہ کسی احمدی کو مدعو نہیں کیا گیا تھا لیکن اس پروگرام میں صرف دو تین ملکوں کے سفیر شامل ہوئے۔ غانا کے وزیر تعلیم نے اپنی مصروفیت کی وجہ سے اشانٹی ریجن کے ڈائریکٹر ایجوکیشن مکرم عبداللہ ناصر بوٹنگ صاحب کو اپنا نمائندہ بناکر بھیج دیا جو خدا کے فضل سے احمدی تھے اور احمدیہ سکول کماسی کے ہیڈماسٹر بھی رہ چکے تھے۔ چنانچہ کماسی کے بہت سے احمدی احباب اس کنونشن میں شامل ہوئے اور مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی درخواست پر مالی قربانی بھی احمدیوں نے ہی پیش کی۔