فتاویٰ حضرت مسیح موعودؑکی امتیازی خصوصیات
جامعہ احمدیہ ربوہ کے خلافت سووینئر میں شعبہ فقہ کے مرتب کردہ ایک مختصر مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتاویٰ کی امتیازی خصوصیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
برصغیر پاک و ہند میں فقہی بنیاد پر مذہب کے دو حصے تھے۔ ایک مقلدین اور دوسرا غیرمقلدین۔ ایک تقلید کو ناجائز سمجھتے ہوئے ہر کس و ناکس کو دین میں اجتہاد کا حق دیتا تھا۔ دوسرا وہ تھا جو اپنے ائمہ کے اقوال کو قرآن و حدیث کی طرح کا درجہ دے بیٹھے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیں بتایا کہ ’’ہمارے نزدیک تقلید کو چھوڑنا ایک اباحت ہے کیونکہ ہر ایک شخص مجتہد نہیں ہے۔ ذرا سا علم ہونے سے کوئی متابعت کے لائق نہیں۔ کیا وہ اس لائق ہے کہ وہ سارے متقی اور تزکیہ کرنے والوں کی تابعداری سے آزاد ہوجائے۔ قرآن شریف کے اسرار سوائے مطہر اور پاک لوگوں کے اور کسی پر نہیں کھولے جاتے۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل)
نیز فرمایا: ’’اہل بصیرت اور معرفت اور تقویٰ اور طہارت کے قول اور فعل کی اس حد تک تقلید ضروری ہے کہ جب تک ببداہت معلوم نہ ہو کہ اس شخص نے عمداً یا سہواً قرآن اور احادیث نبویہ کو چھوڑ دیا ہے کیونکہ ہر ایک کی نظر دقائق دنیا تک نہیں پہنچ سکتی…‘‘۔ (فتاویٰ حضرت مسیح موعودؑ)
حضرت مسیح موعودؑ ایک حَکم کے طور پر بھی تشریف لائے تاکہ آپؑ کے فیصلہ کو شرح صدر کے ساتھ مانا جائے۔ چنانچہ حَکم مومنوں کے لئے بطور رحمت ہے۔ آپؑ کا مذہب یہی ہے کہ کتاب اللہ مقدم اور امام ہے۔ احادیث کا ماننا فرض ہے اگر وہ کتاب اللہ اور سنّت رسولؐ کے مخالف نہ ہوں۔ نیز احادیث کے حفظ مراتب کو بھی سامنے رکھا جائے۔ مثلاً مختلف افراد کے دریافت کرنے پر آنحضورﷺ نے اُن کے لئے مختلف بہترین نیکیوں کا اظہار فرمایا تو اُن کے انفرادی حالات کے باعث بیان کی گئیں۔ حضور علیہ السلام کے کئی فتاویٰ اس بات پر شاہد ہیں کہ آپؑ کا وجود بطور حَکم کے ایک رحمت ہے۔
٭ اس سوال پر کہ نماز میں امام کے پیچھے الحمد نہ پڑھنے سے نماز ہوتی ہے یا نہیں؟ فرمایا: ’’ضرور پڑھنی چاہئے۔ نماز کا ہونا یا نہ ہونا خدا تعالیٰ کو معلوم ہے اور ہزاروں اولیاء اللہ حنفی طریق کے پابند تھے اور وہ خلف الامام الحمد نہ پڑھتے تھے ، جب ان کی نماز نہ ہوئی تو وہ اولیاء اللہ کس طرح ہوگئے۔ اور چونکہ ہمیں امام ابوحنیفہؒ سے ایک طرح سے مناسبت ہے اور ہمیں ان کا ادب ہے ہم یہ فتویٰ نہیں دیتے کہ نماز نہیں ہوتی‘‘۔ (تذکرۃالمہدی)
٭ فرمایا: ’’یہ عاجز شریعت اور طریقت دونوں میں مجدد ہے۔ تجدید کے یہ معنی نہیں کہ کم یا زیادہ کیا جائے، اس کا نام تو نسخ ہے۔‘‘ (الحکم، 24؍جون 1900ئ)
نیز فرمایا: ’’جن لوگوں نے ان ارکان (نماز، روزہ …) کو چھوڑ کر اَور بدعتیں تراشی ہیں،یہ ان کی اپنی شامت اعمال ہے ورنہ قرآن شریف تو کہہ چکا ہے الیوم اکملت لکم … اب پیغمبرﷺ کے اعمال خیر کی راہ چھوڑ کر اپنے طریقے ایجاد کرنا اور قرآن شریف کی بجائے وظائف اور کافیاں پڑھنا اور اعمال صالحہ کی بجائے قسم قسم کے ذکر اذکار نکال لینا یہ لذّت روح کے لئے نہیں ہے بلکہ لذّت نفس کی خاطر ہے۔ لوگوں نے لذّت نفس اور لذّت روح میں فرق نہیں کیا‘‘۔ (ملفوظات جلد 2)
٭ حضورعلیہ السلام نے چہلم اور فاتحہ خوانی کو بدعات قرار دیا ہے۔
٭ روزہ سے متعلق ارشاد: ’’جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہ صیام میں روزہ رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتاہے … نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھاکر کوئی نجات حاصل کرسکتا ہے۔ ‘‘ (البدر 17؍اکتوبر 1907ئ)
٭ سونے، چاندی اور ریشم کے استعمال میں اگرچہ عام طور پر ممانعت ہے تاہم ضرورتاً انہیں استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ چاندی وغیرہ کے بٹنوں کے استعمال سے متعلق پوچھے جانے پر فرمایا: ’’تین چار ماشہ تک کوئی حرج نہیں لیکن زیادہ کا استعمال منع ہے۔ اصل میں سونا، چاندی عورتوں کی زینت کے لئے جائز رکھا ہے۔ ہاں علاج کے طور پر ان کا استعمال منع نہیں… ایک شخص آنحضرتﷺ کے پاس آیا، اُسے جوئیں بہت پڑی ہوئی تھیں۔ آپؐ نے حکم دیا کہ تُو ریشم کا کرتہ پہن اس سے جوئیں نہیں پڑتیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 4)
٭ تصویر کھنچوانے سے متعلق فرمایا: ’’یہ ایک نئی ایجاد ہے۔ … اگر اس فن کو خادمِ شریعت بنایا جاوے تو جائز ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 5)