فتنہ تاتار اور سانحہ بغداد
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6جون2008ء میں مکرم خالد احمد صاحب کے قلم سے اسلامی تاریخ کے ایک دردناک باب ’’سانحہ بغداد‘‘ کو اس کے پس منظر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
منگول یا تاتار،صحرا ئے گوبی (منگولیا، چین) کے بے آب وگیا ہ علاقہ میں خانہ بدوشوں جیسی زندگی بسر کرتے تھے۔ کتے بلی اور ہر قسم کے جانور کا گوشت کھا جا تے۔ گو بی کے شما ل میں چنگیزخان کے آ باء و اجداد کا بڑ ا اثرو رسوخ تھا۔
چنگیز خان 1154ء میں پیدا ہوا۔ اس کا اصلی نام تموچن تھا۔ ابھی بارہ سال کا تھا کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور تاتاری سرداروں نے اِس کی قیادت قبول کرنے سے انکار کر دیا مگر چنگیز خان نے حوصلہ اور صبر سے مردانہ وار مقابلہ کرکے تمام قبائلی سرداروں کو اپنی اطاعت پر مجبور کر دیا۔ اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے بعد اُس نے قریبی علاقوں پر حملے شروع کئے اور سارا چین اپنے زیر نگیں کرکے عظیم الشان تاتاری سلطنت کی بنیاد رکھی۔
ترکستان میں اُن دنوں سلطان علاؤالدین خوارزم شاہ حکمران تھا۔ چنگیز خان نے اسلامی سلطنت سے ایک معاہدہ کرکے تعلقات استوار کئے لیکن ایک افسوسناک حادثہ نے صور تحال کو بالکل بدل کر رکھ دیا۔ 1217ء میں ایک تاتاری قافلہ خوارزم شاہ کی حدود سے گزرا تو علاقہ کے حاکم نے اُن کو جاسوس سمجھ کر گرفتار کرلیا اور پھر خوارزم شاہ کی اجازت سے قتل کرکے مال واسباب ضبط کرلیا۔ اس واقعہ کی خبر چنگیز خان کو ہوئی تو اُس نے خوارزم شاہ سے ضبط شدہ مال کی واپسی اور مذکورہ حاکم کو اُس کے حوالے کئے جانے کا مطالبہ کیا تاکہ مقتولین کا بدلہ لیا جا سکے۔ خوارزم شاہ نے حماقت کا ثبوت دیتے ہوئے اُس کے قاصد کو بھی قتل کروادیا۔اس پر چنگیز خان نے جوش انتقام سے لبریز ہو کر ترکستان کا رُخ کیا اور ہرات، بلخ، بخارا اور سمر قند کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ صرف ہرات کی ایک لاکھ آبادی میں سے 60 ہزارقتل ہوئے اور بقیہ غلام بنائے گئے۔ باقی شہروں کا بھی یہی حال کیا گیا۔
چنگیز خان کے بعد اُس کا لڑکا اکتائی قاآن کا، اور پھر پوتا کیوک خان تخت نشین ہوا۔ کیوک کے بعد اُس کا چچا زاد بھائی منکوقاآن تخت نشین ہوا جس کا ایک بھائی برکہ مسلمان ہوچکا تھا۔ اُس نے عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کو اپنی عقیدت اور وفاداری کا یقین دلایا۔ چنانچہ اُس کی زندگی میں تاتاریوں نے بغداد کی طرف آنکھ بھی نہ اٹھائی۔ بلکہ اُس زمانہ میں عراق وعجم میں جب اسماعیلیوں (باطنیوں) نے ظلم وفساد مچایا تو یہاں کے باشندوں نے منکوقاآن سے فریاد کی تو اُس نے اپنے بھائی ہلاکو خان کو ایران کا حاکم بنا کر بھیجا جس نے اسماعیلیوں کا استیصال کرکے اُن کے قلعہ الموت پر قبضہ کرلیا۔ منکوقاآن کے بعد ہلاکو خان اس کا جانشین مقرر ہوا تو اُس نے محقق نصیرالدین طوسی کو اپنا وزیر مقررکیا۔
دوسری طرف مسلسل ناکارہ اور نااہل حکمران تخت نشین ہونے کی بدولت عباسی خلافت اپنی عظمت اور قوت کھو چکی تھی اور خلفاء کا اقتدار بغداد تک محدود تھا۔ مستعصم باللہ کو امور مملکت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور اُس نے تمام اختیارات اپنے وزیرابن علقمی کے سپرد کررکھے تھے۔ بغدا د میں شیعہ اور سنی آ پس میں ہمیشہ قتل و غارت پر تیار رہتے تھے۔ شیعہ وزیر ابنِ علقمی سنیوں کی دشمنی میں بد نام تھا اور صرف اپنے اقتدار کی خاطر خلیفہ کو حالات کی صحیح خبر نہ ہونے دیتا۔ دوسری طرف خلیفہ کا لڑ کا ابوبکر سنیو ں کا ہم نوا بن کرمیدان میں اتر ا ٓیا تو باہمی خانہ جنگی میں شیعہ آبادی کا کافی نقصان ہوا۔ عباسی خلفاء کی عیش پرستی نے قومی خزانہ خالی کردیا ہوا تھا اور عام لوگوں میں دولت کی فراوانی نے حرب و ضرب کی خواہش کو مفقود کردیا تھا۔
جب ابن علقمی اپنی تما م حدیں عبو ر کر گیا تو خلیفہ مستعصم باللہ نے اپنے بیٹے ابوبکر اور امیر نورالدین کو بھیج کر وہ محلہ جس میں شیعہ آ با د تھے، لٹوا دیا۔ اس پر ابن علقمی نے بغداد میں علوی حکومت قائم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اگرچہ عباسی خلافت بے حد کمزور تھی لیکن چونکہ دنیائے اسلام کا مرکز تھی اس لئے ہلاکو خان بغداد پر حملہ کرنے سے ہچکچاتا تھا تاکہ وہ عالم اسلام کی مخالفت اور قہر ِخداوندی کا موجب نہ بنے۔ ہلاکو خان کا وزیر نصیرالدین طوسی کٹر اسمٰعیلی تھا۔ ابن علقمی نے اُس کی وساطت سے ہلاکو خا ن کو بغداد پر حملہ کرنے کی دعوت دی اور طوسی نے یہ کہہ کر ہلاکو خان کی ہمت بڑھائی کہ اگر حضرت یحییٰ اور حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کے بعد بھی دنیا اسی طرح قائم ہے تو مستعصم کی موت سے کونسی قیامت برپا ہوجائے گی؟
ابن علقمی نے اندرونی سازشوں کا جال بھی بچھا رکھا تھا۔ عباسی خلیفہ مستنصرباللہ نے تاتاری حملہ کے سدّباب کیلئے زبردست فوج تیا ر کی تھی۔ لیکن خلیفہ مستعصم باللہ نے ابن علقمی کی تجویز پر اخراجات میں کمی کی خاطر فوج میں کمی کردی اور باقی فوجیوں کو نقد تنخواہ دینے کی بجائے شہریوں سے محاصل وصول کرنے کی اجازت دیدی۔ (ابن علقمی کی تجویز کا مقصد فوج اور شہریوں کے درمیان نفرت پیدا کرنا تھا)۔
ہلاکو خان کو خلیفہ سے اس وجہ سے بھی پرخاش تھی کہ اُس نے جب مصر پر حملہ کیا تو خلیفہ مستعصم باللہ سے مدد مانگی لیکن خلیفہ نے مدد دینے کی بجائے ہلاکو خان کو بڑا سخت خط لکھا۔ بالآخر اپنوں کی سازش سے 1258ء میں ہلاکو خان نے بغداد پر فوج کشی کردی۔ لیکن خلیفہ کی مختصر فوج نے تاتاریوں کو شکست دیدی۔ پھر تاتاریوں نے بغداد کا محاصرہ کرلیا جو چالیس دن تک جاری رہا۔ اس دوران ہلاکو خان بغداد پر آگ اور پتھروں کی بارش برساتا رہا۔ بغداد کے عوام بھی بڑی بے جگری سے لڑتے رہے اور خلیفہ کی فوج کے ایک اعلیٰ افسر دیودار نے بھی بڑی بہادری اور جانفشانی کا ثبوت دیا لیکن تاتاریوں کے زوردار حملہ سے عباسی فوج کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ شہر کی طرف واپسی کا سفر جاری تھا کہ بد قسمتی سے دریائے دجلہ کا بند ٹوٹ گیا جس سے عباسی فوج کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو گئی۔ اس پر تاتاریوں نے عقب سے اسلامی فوج پر حملہ آور ہو کر اسے تہس نہس کر دیا۔ امیر دیودار قتل ہوا اور اس کے ساتھی گرفتار ہوگئے ۔ اگرچہ محصورین نے بڑی بے جگری سے مقابلہ کیا لیکن ہلاکو خان کی منجنیقیں شہر کی فصیل اور مکانات پر پتھر برساتی رہیں جس سے عمارات ملبے کا ڈھیر بن گئیں اور شہر میں آگ کے شعلے بھڑکنے لگے۔
ہلاکو خان نے بغداد فتح کرلیا تو ابن علقمی نے ہلاکو خان سے اپنی جان بخشی کروائی اور مستعصم باللہ اور بغداد کے تمام علماء، فقہاء، مدرسین، اکابر داعیان کو یہ یقین دلاکر ہلاکو خان کے پاس لے گیا کہ ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ خلیفہ سے ابن علقمی نے کہا کہ ہلاکو خان تم کومنصب خلافت پر برقرار رکھے گا اور اپنی لڑکی کی شادی اس کے بیٹے ابوبکر کے ساتھ کردے گا۔ لیکن جب یہ لوگ ہلاکو خان کے پاس آئے تو اُس نے ان سب کو قتل کر وا دیا اور خلیفہ مستعصم کو ڈنڈوں کے ساتھ مار مار کر ختم کر دیا اور اس کی لاش کو پیروں سے مسلا۔ ان میں سے کسی کو بھی کفن تک میسر نہ ہوا ۔ یہ واقعہ محرم 1258ء میں پیش آیا۔ اس کے بعد وحشی تاتاری بغداد میں کئی دن تک قتل عام کرتے رہے۔ عورتوں اور بچوں کو بھی زندہ نہ چھوڑا۔ ہزاروں عورتوں کی عصمتیں لوٹی گئیں۔ تاتاری وحشیوں نے شہر کی عالیشان مسجدیں، خانقاہیں، محلات، مکانات، درسگاہیں اور لائبریریاں سب کو جلاکر راکھ کردیا۔ اس قتل عام میں 16 لاکھ مسلمان مارے گئے۔ اور کئی روز دریائے دجلہ کا پانی خون کی فراوانی سے سرخ ہو کر بہتا رہا۔
بغداد کی تباہی سے نہ صرف عباسی خلافت کا خاتمہ ہوا بلکہ دنیائے اسلا م کی مرکزیت بھی قائم نہ رہی۔ اور بغداد کی علمی و ادبی مرکز کی حیثیت بھی ختم ہوگئی۔ تاہم ایک مثبت پہلو بھی سا منے آیا کہ مسلمانوں نے اسے اپنی بدکاریوں کی سزا سمجھتے ہوئے دین کی طرف تو جہ دینی شروع کردی۔