فجی کی پہلی مسجد کی تعمیر کا ایمان افروز واقعہ
محترم مولانا شیخ عبدالواحد صاحب فاضل جب فجی کے شہروں ناندی اور لٹوکا میں جماعتوں کی بنیاد رکھ کر دارالحکومت صووا پہنچے تو جون 1961ء میں ایک ہی دن میں 12 افراد بیعت کرکے جماعت میں شامل ہوگئے۔ جب ایک مخلص اور فعال جماعت قائم ہوگئی تو ایک مکان کرایہ پر لے لیا گیا۔ لیکن عید الفطر کے موقعہ پر یہ مکان انتہائی ناکافی ثابت ہوا۔ اس پر ایک ساتھ والا مکان جو ایک بیوہ کی ملکیت تھا اور وہ اسے تین ہزار پاؤنڈ میں ایک شراب خانہ کو فروخت کرنا چاہ رہی تھی لیکن محلہ کے شرفاء کے احتجاج پر یہ جگہ شراب خانہ والے نہ خرید سکے۔ جماعت نے اپنی حیثیت کے مطابق اس جگہ کے دو ہزار پاؤنڈ پیش کئے لیکن وہ خاتون راضی نہ ہوئی۔ اِس پر اُس عورت کے بعض رشتہ داروں کے ذریعہ اسے سمجھایا کہ اس کی زمین کسی ذاتی یا تجارتی غرض کے لئے نہیں بلکہ محض مسجد کی تعمیر کے لئے لی جارہی ہے۔ چنانچہ یہ زمین مل گئی۔ اگرچہ بعدازاں مخالفین کے اکسانے پر اس عورت نے جماعت کو قبضہ دینے میں کئی تاخیری حربے استعمال کئے لیکن بہرحال اُسے یہ مکان چھوڑنا پڑا۔
جماعت نے مزید تین صد پونڈ لگاکر اس عمارت کی مرمت کی اور محراب وغیرہ بناکر اسے مسجد کی شکل دی گئی۔ مسجد فضل عمر کے احاطہ میں لائبریری اور دفتر بھی بنایا جبکہ باقی حصہ مربیان اور مہمانوں کے استعمال میں آنے لگا اور خالی زمین باغیچہ میں تبدیل کردی گئی۔ اس کے تقریباً گیارہ سال بعد 1972ء میں اس بیوہ عورت نے اپنی اولاد سمیت احمدیت قبول کرلی جس کی ایک وجہ اُس نے یہ بتائی کہ 1958ء میں اُس نے خواب دیکھا تھا کہ اس کا وہی مکان مسجد میں تبدیل ہوگیا ہے اور لوگ اس میں نماز پڑھنے آرہے ہیں لیکن چونکہ اسے نماز روزہ سے چنداں دلچسپی نہ تھی اس لئے بعد میں وہ خواب بھی اس کے ذہن سے اتر گیا۔ مگر اُس وقت دوبارہ یاد آگیا جب واقعات نے اسے سچا ثابت کردیا تھا اور وہ مکان مشیت الٰہی سے مسجد میں تبدیل ہو کر ہزاروں مومنوں کی سجدہ گاہ بن چکا تھا۔