فن مضمون نویسی
ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ جولائی 1996ء میں محترم راجا نصر اللہ خان صاحب ’’فن مضمون نویسی‘‘ کے بارہ میں راہنما اصول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مضمون نگاری کی خواہش رکھنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ کسی موضوع پر لکھنے سے پہلے اس موضوع پر پڑھنا بہت ضروری ہے۔ چنانچہ عمدہ کتب کے مطالعہ کی عادت لکھنے کی طرف پہلا قدم ہے۔
دوسرے یہ کہ دورانِ مطالعہ اپنے پسندیدہ حوالوں اور تراشوں کو محفوظ کرتے جائیں۔
نیز لکھنے کے لئے آغاز بھی اپنے پسندیدہ موضوع سے ہی کیجئے اور دعا کے ساتھ اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کر کے مواد تیار کریں۔
مضمون کا عنوان اور تعارفی سطریں بہت اہم ہوتی ہیں۔
مضمون کے جملے آسان، واضح، مدلل اور مؤثر ہونے چاہئیں۔ مبہم، گھسے پٹے اور قدیم طرز کے بھاری بھرکم متروک الفاظ کے استعمال سے اجتناب کیجئے۔
پیراگراف بھی زیادہ لمبے نہ ہوں۔ اختتامی سطور پر خاص توجہ دیجئے اور مضمون مکمل کرکے تنقیدی نظروں سے اس کا کئی بار جائزہ لیجئے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو مضمون نویسی میں منفرد ملکہ حاصل تھا۔ آپؓ کا اس فن سے متعلق ایک مضمون 13؍ فروری 1992ء کو روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ میں مکرر شائع ہوا تھا۔ آپؓ کی قوت بیان، شوکت الفاظ اور اندازِتلقین کا اندازہ اس مضمون کے حسب ذیل فقرات سے کیا جا سکتا ہے۔ فرماتے ہیں:-
’’پس اے عزیزو! اور اے دوستو! اپنے فرض کو پہچانو اور سلطان القلم کی جماعت میں ہوکر دین کی قلمی خدمت میں وہ جوہر دکھاؤ کہ اسلام کی تلواریں تمہارے قلموں پر فخر کریں۔ قلم کے جوہر دکھائیں اور دنیا کی کایا پلٹ دیں‘‘۔