فیض احمد فیض
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7مارچ 2005ء میں مکرم آغا میر حسن صاحب کے قلم سے عظیم بین الاقوامی شاعر فیض احمد فیض کا تعارف شامل اشاعت ہے۔
فیض 13؍فروری 1911ء کو سیالکوٹ میں گاؤں نارووال کی ایک بستی کالا قادر میں پیدا ہوئے۔ والد سلطان محمد خان بیرسٹر تھے جو سیالکوٹ میں وکالت سے پہلے افغانستان کے بادشاہ امیر عبد الرحمٰن کے دربار میں چیف سیکرٹری کے عہدے پر بارہ سال تک فائز رہے۔ چنانچہ فیض نے نازونعم میں ہوش سنبھالا۔ ابتدائی تعلیم چرچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ سے حاصل کی۔ فیض کا گھرانہ مذہبی تھا چنانچہ سب سے پہلے قرآن پاک حفظ کیا۔ بچپن ہی سے ذہین اور حساس تھے۔ فرصت کے لمحات میں اردو ناول پڑھنا شروع کردئیے۔ والد کو پتہ چلا تو انہوں نے اردو کی بجائے انگریزی ناول پڑھنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ انگریزی ناول بھی پڑھنا شروع کر دئیے۔ غالب کے کلام کے ساتھ شعر و ادب کا مطالعہ شروع کیا اگرچہ اُس وقت غالبؔ کی شاعری سمجھ نہیں آتی تھی۔ دسویں جماعت کی تعلیم کے دوران شعر کہنا شروع کر دئیے۔
مرے کالج سے F.A. کرنے کے بعد لاہور چلے گئے اور 1929ء میں گورنمنٹ کالج میں B.A. میں داخلہ لے لیا۔ وہاں عظیم ادبی شخصیات سے ملاقاتیں رہیں۔دورانِ تعلیم نیلا گنبد لاہور میں مفتی محمد حسین کے درس میں شامل ہوتے۔جامعہ اشرفیہ میں انہوں نے ایک سال کا مکمل درس لیا۔ انگریزی اور عربی میں ایم اے کرنے کے بعد 1935ء میں MAO کالج امرتسر میں انگریزی کے استاد کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کر دیا۔ اب ان کی شاعری کا چرچا بھی دور دور تک ہونے لگا تھا۔ دنیا کے مظلوم انسانوں اور ان کے معاشرتی دکھوں کو فیض نے اپنا دکھ بنا لیا تھا۔ 1942ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’نقش فریادی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ فیض جوانی کے عالم میں بڑے نازک اندام تھے۔ گورے چٹے، گھنگھریالے بال، آنکھوں اور ہونٹوں پر ہر وقت ہلکی ہلکی مسکراہٹ رہتی تھی۔ صاف ستھرا لباس پہنتے تھے۔ ان کی شاعری کی طرح ان کی شخصیت بھی بہت نکھری ہوئی اور دھیمی تھی۔
28؍اکتوبر 1941ء کو ان کی شادی لندن نژاد خاتون ایلس کیتھرین جارج سے ہوئی۔ فیض انقلابی شاعر تھے لیکن وہ ایسا انقلاب چاہتے تھے جو پُر امن ہو اور محروم لوگوں کو خوشی اور آسودگی دے۔ بہت جلد اُن کی شہرت ہندوستان سے باہر دوسرے ملکوں تک جاپہنچی۔ دوسری عالمگیر جنگ چھڑی تو دوستوں کے اصرار پر فیض نے بھی فوج میں کمیشن لے لیا اور کیپٹن بن کر دہلی چلے گئے۔ ان کی تقرری فوج کے محکمہ تعلقات عامہ میں ہوئی۔ 1942ء سے 1947ء کے اوائل تک فیض دہلی اور راولپنڈی میں رہے اور لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک پہنچے۔
جنوری 1947ء میں فوج کی ملازمت چھوڑ کر صحافت کے میدان میں اتر گئے۔ قائد اعظم کے ایماء پر معروف انگریزی اخبار ’’پاکستان ٹائمز‘‘ جاری ہوا اور انہیں مدیر اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اداریہ نویسی کا ایک نیا ڈھنگ نکالا اور اس کو ایک ادبی رنگ دے دیا۔ پاکستان بنا تو فیض پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر کی حیثیت سے لاہور میں ہی مقیم تھے۔ 1951ء میں فیض پرکچھ دوسرے ساتھیوں سمیت بغاوت کا مقدمہ بنا جسے راولپنڈی سازش کیس کا نام دیا گیا۔ اس مقدمہ میں انہیں چار سال قید کی سزا ہوئی۔
وہ 9؍مارچ 1951ء کو قید اور اپریل 1955ء میں رہا ہوئے۔ اس عرصہ میں پہلے تین مہینے سرگودھا اور لائل پور (فیصل آباد) کی جیلوں میںقید تنہائی میں رہے۔ اس کے بعد جولائی 1953ء تک انہیں حیدر آباد میں رکھا گیا، پھر رہائی تک راولپنڈی سازش کیس کے باقی اسیروں کے ساتھ منٹگمری (ساہیوال) جیل میں رکھا گیا۔
فیض احمد فیض کو کچھ لوگ مذہب سے بیگانہ سمجھتے تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ مذہب انسان کی نفسیات پر بہت اچھا اثر ڈالتا ہے۔ چنانچہ دین جو انسانیت سکھاتا ہے وہ ہمیشہ ان کے مدنظر رہا۔ حیدر آباد جیل میں وہ قرآن پاک اور حدیث شریف کا درس دیا کرتے تھے۔ کئی ساتھی قیدیوں نے ان سے صوفیائے کرام کی تصانیف فتوح الغیب، کشف المحجوب اور احیاء العلوم وغیرہ کے رموز ونکات سمجھے۔ جیل میں ان کی درس و تدریس میں مذہب کے ساتھ ساتھ مارکسزم اور فارسی ادب بھی شامل تھے۔ محنت کشوں سے انہیں بہت محبت تھی۔
فیض ٹھنڈے مزاج کے بے حد صلح پسند آدمی تھے۔ بات کتنی بھی اشتعال انگیز ہوتی یا حالات کتنے ہی ناسازگار ہوتے وہ نہ برہم ہوتے اور نہ طیش میں آتے۔ 1955ء میں رہا ہونے کے بعد پھر صحافت کی طرف لوٹ آئے اور 1958ء میں مارشل لاء نافذ ہونے تک ’’پاکستان ٹائمز‘‘ سے منسلک رہے۔ اس دوران 1952ء میںان کی کتاب ’’دست صبا‘‘ اور 1956ء میں ’’زندان نامہ‘‘ شائع ہوئی۔ ملک میں مارشل لاء لگا تو وہ افرو ایشین رائٹرز کانفرنس کے سلسلے میں پاکستانی وفد کے ساتھ ملک سے باہر تھے۔ دسمبر1958ء وطن واپس آئے تو تین ماہ کے لئے شاہی قلعہ لاہور میں نظر بند کردیئے گئے۔
1960ء کا عشرہ شروع ہوا تو فیض تمام دنیا کے مظلوم عوام کی آواز بن کر گونج رہے تھے۔ عالمی امن اور انسانیت کی فلاح و بہبود کی خاطر جدوجہد کی نمایاں خدمات کے صلہ میں 27؍اگست 1962ء کو ماسکو (سوویت یونین) میں فیض کو لینن امن انعام دیا گیا۔ اس اعلان کے ساتھ بعض اخبارات اور حکام کے طرزعمل سے فیض بہت دل برداشتہ ہوئے۔ چنانچہ جب وہ انعام وصول کرنے ماسکو گئے تو وہاں سے لندن چلے گئے اور دو سال تک وہیں رہے۔ 1964ء میں وطن واپس آئے اور عبد اللہ ہارون کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے کراچی میں مقیم ہوگئے۔ 1965ء میں ان کی کتاب ’’ دست تہ سنگ‘‘ اور 1971ء میں ’’سروادی سینا‘‘ شائع ہوئی۔
فروری 1972ء میں صدر پاکستان نے فیض کو قومی ثقافتی ادارہ بنانے کے لئے کہا۔ چنانچہ نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے نام سے ادارہ قائم کیا گیا اور فیض کو اس کا چیئرمین بنایا گیا۔ وہ چار برس تک اس ادارے کے چیئرمین رہے اور پھر لاہور چلے آئے۔ فروری1978ء میں بیروت گئے اور افروایشین رائٹرز کے رسالے ’’لوٹس‘‘ کی ادارت سنبھال لی۔ اگلے تین سال ان کا قیام بیروت میں رہا مگر وہ وہاں سے ادیبوں کی کانفرنسوں میں شرکت کے لئے دیگر ممالک میں جاتے رہے۔ اس دوران 1978ء میں ان کی کتاب ’’شام شہریاراں‘‘ اور 1981ء میں ’’میرے دل، مرے مسافر‘‘ شائع ہوئیں۔
جنوری1982ء میں فیض پاکستان واپس آگئے۔ 19؍نومبر 1984ء کو لاہور میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی شخصیت کے بہت سے پہلو تھے یعنی وہ ادیب تھے، شاعر تھے، نقاد، صحافی، پروفیسر، سیاست دان اور مزدور رہنما تھے لیکن ان کی شہرت اور پہچان ان کی خوبصورت شاعری بنی۔ ان کی تحریروں کا دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔