قائد اعظم محمد علی جناح
قائد اعظم محمد علی جناح ایک انتہائی بااصول شخص تھے اور اُنہوں نے اپنی ساری زندگی ایک ضابطہ کے تحت گزاری جس کا اعتراف اُن کے سیاسی مخالفین نے بھی کیا۔ اُنکی زندگی سے منتخب واقعات ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ دسمبر 1999ء میں مکرم عمران بدر ہاشمی صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہیں۔
قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد جب آپ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے لئے تشریف لائے اور عین وقت پر کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا تو کئی وزراء اور اعلیٰ افسران جن میں وزیراعظم بھی شامل تھے ، وہاں نہیں پہنچے تھے اور اگلی قطار میں ایسی شخصیات کے لئے مخصوص کرسیاں خالی پڑی تھیں۔ قائد اعظم نے تمام خالی کرسیاں اٹھادینے کا حکم دیا چنانچہ وزیراعظم سمیت دیر سے آنے والے تمام عہدیداروں کو پوری تقریب کے دوران کھڑے رہنا پڑا۔
علی گڑھ میں ایک موقع پر جب قائد اعظم نے اپنی تقریر ختم کی تو ایک برہمن ہندو طالب علم نے سوال کیا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں آخر کیا فرق ہے جس کیلئے پاکستان بنانا ناگزیر ہوچکا ہے؟ اس پر آپ نے پانی کے ایک گلاس میں سے دو گھونٹ پئے اور پھر اُس ہندو لڑکے کو بلاکر کہا کہ اب باقی پانی وہ پی جائے۔ اُس نے صاف انکار کردیا۔ تب آپ نے ایک مسلمان طالب علم کو بلاکر یہی کہا تو وہ بخوشی پانی پی گیا۔ اس پر آپ نے صرف اتنا فرمایا: ’’یہ ہے ہمارے اور تمہارے درمیان فرق‘‘۔
شملہ کانفرنس کے موقع پر ایک امریکی سیاح نے رات گئے قائداعظم کو کام کرتے دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ کانگریس کے لیڈر تو سو چکے ہیں اور آپ ابھی تک جاگ رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: وہ اس لئے سوتے ہیں کہ اُن کی قوم جاگتی ہے اور مجھے اس لئے جاگنا پڑتا ہے کہ میری قوم سو رہی ہے۔
14؍اگست 1947ء کو کراچی میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے قائد اعظم کو بطور گورنر جنرل اقتدار منتقل کیا تو تقریب میں موجود ایک اخباری نمائندہ کے سوال کے جواب میں قائد اعظم نے فرمایا: پاکستان کے حصول میں میرا حصہ دو آنہ ہے اور اس میں چھ آنہ کے برابر دس کروڑ عوام کا حصہ ہے جبکہ باقی روپے میں سے آٹھ آنہ کا حصہ ہندوؤں کا ہے … اگر ہندو متعصب اور تنگ نظر نہ ہوتے تو ہمیں پاکستان کے حصول کی ضرورت ہی نہ محسوس ہوتی۔
ایک بار ایک انگریز مجسٹریٹ کی عدالت میں قائداعظم دلائل دے رہے تھے کہ مجسٹریٹ نے طنزیہ کہا: ’’مسٹر جناح! مَیں آپ کی باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے اُڑا دیتا ہوں‘‘۔ آپ نے برجستہ جواب دیا: ’’جناب والا! آپ کے دونوں کانوں کے درمیان کی جگہ غالباً خالی ہے‘‘۔
ایک اَور عدالت میں جب قائداعظم کی جارحانہ بحث پر مجسٹریٹ نے آپ سے کہا کہ مسٹر جناح! آپ کسی تھرڈ کلاس مجسٹریٹ سے مخاطب نہیں ہیں۔ تو قائد اعظم نے فرمایا: آپ کے سامنے بھی اس وقت کوئی تھرڈ کلاس وکیل نہیں ہے۔
ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ارون کہتے ہیں: ’’مجھے ہندوستان کے کسی لیڈر سے خطرہ نہیں۔ اگر ہے تو محمد علی جناح سے ہے کیونکہ یہی وہ شخص ہے جو ملک کی آزادی دل و جان سے چاہتا ہے۔ کسی اَور لیڈر کو آزادی کی پروا نہیں۔ ان سب کو تو کچھ نہ کچھ لے دے کر راضی کیا جاسکتا ہے۔ مگر جناح نے اپنی بات اگر ہندوستانیوں سے منوالی جیسا کہ مجھے یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن وہ منوالے گا تو پھر برطانیہ کیلئے ہندوستان میں رہنا مشکل ہوجائے گا‘‘۔
معروف ادیبہ مسز سروجنی نائیڈو کے سامنے کسی نے قائد اعظم کو انگریز کا زرخرید کہہ دیا تو وہ بولیں: ’’کیا کہا تم نے، کہ جناح انگریزوں کا زرخرید ہے! تم بِک سکتے ہو، میں خریدی جاسکتی ہوں۔ باپو (گاندھی جی) اور جواہر لال نہرو کا سودا بھی شاید ہوسکتا ہے مگر جناح انمول ہے۔ اُسے کوئی نہیں خرید سکتا۔ ہمارے نقطہ نظر سے وہ غلط راستے پر گامزن ہے لیکن ان کی دیانت اور فکر ہر طرح کے شک و شبہ سے بالا ہے‘‘۔
پنڈت جواہر لال نہرو کی بہن مسز وجے لکشمی نے ایک بار کہا: ’’اگر مسلم لیگ میں ایک سو گاندھی اور دو سو ابوالکلام آزاد ہوتے اور ان کے مقابلے میں صرف ایک جناح ہوتے تو ملک کبھی تقسیم نہ ہوتا‘‘۔
خود پنڈت جواہر لال نہرو نے اعتراف کیا کہ ’’مَیں نے مسٹر جناح کی طاقت و عظمت کا اندازہ کرنے میں سخت غلطی سے کام لیا ہے‘‘۔
مرہٹی زبان کے اخبار ’’ویرکیسری‘‘ کے مدیر نے لکھا: ’’مجھے اس بات پر غصہ آتا ہے کہ اس شخص (قائداعظم) کی کوئی قیمت نہیں اور یہ بِک نہیں سکتا۔ ہندوستان میں نہ بکنے والا یہی ایک شخص ہے، اسی لئے تو مَیں اس کی پرستش کرتا ہوں۔ کاش ہم ہندوؤں میں آدھا جناح بھی پیدا ہوجاتا تو ہمارے ملک کو آزادی حاصل کرنے میں کوئی دیر نہ لگتی‘‘۔
مسٹر گاندھی نے کہا ’’چند سیاسی اختلافات کے باوجود مَیں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ مجھے مسٹر جناح کے خلوص پر پورا اعتماد ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ جناح کو مسلم عوام پر بے نظیر قابو حاصل ہے اور مجھے جناح کے خلوص پر اعتماد ہے۔ باوجو د دیگر سیاسی اختلافات کے میرا دل آج بھی ان کے خلوص کا قائل ہے‘‘۔ ’’قائد اعظم کو خریدا نہیں جاسکتا، مسلمانوں کو ایسے لیڈر پر فخر کرنا چاہئے‘‘۔