قادیان دارالامان اور سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی پہلی زیارت
(مطبوعہ رسالہ انصارالدین مئی جون 2024ء)
دسمبر1944ء میں حضرت والد صاحب نے جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کاارادہ کیا تو برادرم نذیر احمداور مجھے بھی ساتھ لیا۔ ہم پشاور کے ریلوے اسٹیشن سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔ ریل کے جس ڈبہ میں ہم سوار ہوئے وہ احمدیوں کے لیے ریزرو تھا۔ گاڑی روانہ ہوتے ہی سب نے لمبی اجتماعی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے، سب رو رہے تھے اور سسکیوں اور آہوں کے ساتھ آہ وزاری میں مصروف تھے۔ مجھ پر اس کا بےحد اثر ہوا۔ دعا ختم ہوئی تو چند نوجوان احمدیوں نے نعرہ ہائے تکبیربلندکئے۔ ہمارے ڈبے میں ایک دوست میاں محمد یوسف صاحب صراف سارا رستہ جوش و خروش سے درثمین سے نظمیں پڑھتے رہے۔ علی الصبح ہم لاہور پہنچے۔ یہاں سے امرتسر کے لیے گاڑی بدلی۔ امرتسر میں قادیان کے لیے ٹرین تیار کھڑی تھی۔اس میں سوارہوگئے۔ یہ گاڑی تمام کی تمام احمدیوں سے بھری ہوئی تھی۔ صرف چند سکھ حضرات کسی کسی ڈبہ میں نظر آتے تھے۔ گاڑی روانہ ہوئی تو فضا نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اٹھی۔ پھر اجتماعی دعا ہوئی۔ یہاں بھی احمدیوں کی آہ و زاری نے مجھے بےحد متاثر کیا۔ قریباً ساراراستہ گاڑی احمدیوں کے نعروں سے گونجتی رہی۔ شام کوہم قادیان پہنچے جہاں درجنوں کی تعداد میں خدام ہماری خدمت کے لیے موجود تھے۔ انہوں نے ہمیں ہماری قیام گاہ پر پہنچا دیا۔
اگلے دن صبح نماز فجر سے فارغ ہوکر ہم ایک ریسٹورنٹ میں گئے جس میں ایک لمبی میز بچھی ہوئی تھی جس پر کیک، پیسٹریاں، سموسے اور دوسری کھانے کی اشیاء رکھی ہوئی تھیں۔ ایک ملازم چائے کی کیتلی اٹھائے سب کی پیالیاں چائے سے بھرتاجاتا تھا۔ ہم نے خوب ناشتہ کیا اور باہر آکر ریسٹورینٹ کے مالک کو بتایا کہ ہم نے کیا کھایا پیا ہے۔اُس نے اس کے دام بتائے جو ہم نے ادا کردیے۔ مجھے اس بات کی بےحد حیرت ہوئی کہ صرف ہمارے کہنے پر اُس نے اعتبار کرلیا۔ سبھی گاہکوں کا یہی طریق تھا۔ دیانت کایہ نظارہ میں نے زندگی میں پہلی دفعہ دیکھا تھا اور آج تک میرے دل پر اُس وقت کے قادیان کی دیانت و امانت کایہ منظر نقش ہے۔ یہ وہ انقلاب تھا جو احمدیت نے برپا کیا تھا۔
قادیان کاماحول دنیا و مافیھا سے بالکل جدا تھا۔ ہر طرف السلام علیکم کی آوازیں استقبال کرتی تھیں۔اگلے دن والد صاحب نے ہمیں (یعنی برادرم نذیر احمد کو اور مجھے) فرمایا کہ آج شام صوبہ سرحد کی جماعتوں کی حضور ؓ سے ملاقات ہے اس لیے تم دونوں صاف ستھرے کپڑے پہنو۔ ہم شام کا بے تابی سے انتظار کر نے لگے۔مَیں نے اس وقت تک حضور ؓ کو نہیں دیکھا تھا۔ حضور ؓ کی تصاویر البتہ دیکھ چکا تھا۔شام کو ہم قصر خلافت جا پہنچے۔ ہمیں ایک کمرے میں بٹھایا گیا۔ اس دوران میاں محمد یوسف صاحب صراف پشاور خوش الحانی سے درثمین اور کلام محمود سے اشعار پڑھ رہے تھے۔ ہم سب اس بات کے شدت سے منتظر تھے کہ دروازہ کھلے اور ہم اپنے پیارے محبوب آقا کی زیارت کر سکیں۔ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب ؓ امیر جماعت ہائے صوبہ سرحد بھی موجود تھے۔ آپ میرے خالو تھے۔ صوبہ سرحد کے ہر احمدی کو جانتے پہچانتے تھے۔ حضورؓ تشریف لائے تو حضرت قاضی صاحب ؓ نے سب سے پہلے حضورؓ سے ملاقات کی اور حضورؓ کے دائیں جانب بیٹھ گئے۔ لوگوں نے حضورؓ سے باری باری مصافحہ شروع کیا تو حضرت قاضی صاحبؓ ہر ایک کا تعارف کراتے جاتے تھے۔
میں نے جونہی حضور انورؓ کا پرنور چہرہ دیکھا، میں مبہوت ہوکر رہ گیا۔ حضورؓ کا چہرہ اتنا منور اورخوبصورت تھاکہ دل چاہتا تھا بس دیکھتا ہی چلا جاؤں۔ سارا ماحول نورانی اور دلکش تھا۔ حضور ؓ ایک کرسی پر تشریف فرما تھے۔ نصف جسم کمبل میں لپٹا ہوا تھا۔ ایک ایک کرکے عقیدت مند آگے بڑھتے تھے ،السلام علیکم کہتے تھے، مصافحہ کرتے وقت حضورؓ کے دستِ مبارک کو چومتے اور پھر انتہائی نظم و ضبط کے ساتھ آگے بڑھتے۔میں بھی اپنی باری پر آگے بڑھا۔ حضورؓنے اپنا ہاتھ آگے کیا۔ میں نے مصافحہ کرکے دست بوسی کا شرف حاصل کیا۔ حضورؓ کے ہاتھ کے لمس نے میرے اندر ایک عجیب سی برقی لہر دوڑا دی اور میرے جسم پر کپکپی سی طاری ہوگئی۔ میری عمر اس وقت بمشکل 13سال کی تھی۔ مَیں روحانیت کے کوچہ سے بالکل نابلد تھا لیکن حضور اقدسؓ کی محبت اور آپ سے گہری وابستگی کاآغاز اسی دن سے ہوگیا اور مَیں دل و جان سے حضورؓ پر فریفتہ ہوگیا۔ ملاقات سے فارغ ہوکر واپس اپنی قیام گاہ پر پہنچے توہر کسی کی زبان پرحضورؓ سے ملاقات کاتذکرہ تھا۔ ہر کوئی نازاں اور شاداں تھاکہ اسے پیارے آقا کے ہاتھ چومنے کا موقع مل گیا۔
جلسہ سالانہ کی تقاریر تومجھے یاد نہیں۔ البتہ حضور اقدسؓ کی تقاریر کو سارا وقت سنا اگرچہ ایک لفظ بھی سمجھ میں نہ آیا کیونکہ مَیں اُن دنوں اردو زبان سے بالکل نابلد تھا۔ سوائے پشتو زبان کے اَور کوئی زبان نہیں جانتاتھا۔ جلسہ کے دنوں میں قادیان کی رونقیں قابلِ دید تھیں۔ بازار سجے سجائے اورعوام سے بھرے ہوئے ہوتے تھے۔ مساجدمیں نمازوں کے اوقات میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ نمازوں میں سوزوگداز اور آہ وزاری کایہ عالم ہوتا تھاکہ گویا رونے دھونے سے ایک حشر بپا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ آخریہ لوگ کیوں اس قدر آنسو بہاتے ہیں۔ بہرکیف یہ مناظر میرے دل پر ایک نقش چھوڑرہے تھے اور میری زندگی کے مستقبل کے خدوخال آہستہ آہستہ بن رہے تھے۔
جلسہ کے اختتام پر جب ہم واپس روانہ ہوئے تو ریل گاڑی میں بیٹھے بیٹھے میرے والد صاحب نے مجھ سے سوال کیاکہ قادیان کیسا لگا؟ میں نے عرض کیاکہ بےحد اچھا اور خوبصورت۔ فرمانے لگے:یہاں اگر تمہیں سکول میں داخل کروادوں تو کیسا رہے گا؟ مَیں نے بڑی خوشی سے سکول میں داخل ہونے کی درخواست کردی۔ چنانچہ اگلے سال یعنی اپریل1945ء میں میرے ماموں عبدالسلام خان صاحب میرے والد صاحب کے ارشاد پر مجھے قادیان لے گئے اور تعلیم الاسلام سکول میں داخل کروادیا۔