قادیان کی یادیں
مکرم محمد سعید احمد صاحب کے قلم سے قادیان کی بعض یادیں ہفت روزہ ’’بدر‘‘ 6؍دسمبر 2005ء کی زینت ہیں۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ
٭ 1938ء میں بیروزگاری کی وجہ سے میرے والد محترم محمد رفیق صاحب قادیان چلے آئے اور مجھے تعلیم الاسلام سکول کی تیسری جماعت میں داخل کرادیا۔ محترم ماسٹر عبدالعزیز صاحب ہمارے استاد تھے۔ پُروقار اور پُرنُور چہرہ۔ مسکراتے کم تھے، بچوں کو سزا بھی کم دیتے، ایسا محسوس ہوتا کہ ہر وقت ذکرالٰہی میں مصروف رہتے تھے۔ حضرت ڈاکٹر عبدالکریم صاحبؓ ہمارے مربی اطفال تھے۔ ایک رات ہم مسجد سے عشاء کی نماز پڑھ کر نکلے تو چاندنی رات تھی۔ دس بارہ بچوں نے مل کر کھیلنا اور شور مچانا شروع کردیا۔ کچھ ہی دیر میں مربی صاحب کی غصہ میں بھری ہوئی آواز آئی: او نیک بختو! بزرگ نوافل ادا کررہے ہیں اور تم اتنا شور کر رہے ہو، اس لئے تم سب کو سزا ملے گی۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ کس کس کو دعائے قنوت آتی ہے۔ سب نے سر جھکالیا اور انہوں نے وہیں زمین پر کلاس لگالی کہ جس کو دعا یاد ہوتی جائے وہ گھر جاتا جائے۔
٭ اُس زمانہ میں اکثریت صحابہؓ کرام پر مشتمل تھی۔ یہ بزرگ آپس میں ملتے تو بھائی کہہ کر دوسروں کو مخاطب کرتے، معانقہ کرتے، خیریت دریافت ہوتی۔ ایسا معلوم ہوتا برسوں بعد ملے ہیں لیکن ہر نماز پر یونہی ملتے کہ مسرت سے چہرے کھل جایا کرتے۔ گھنٹوں مسجدوں میں بیٹھ کر ذکر الٰہی کرتے، لمبے لمبے نوافل ادا کرتے اور سجدوں میں روتے۔ ہر وقت حضرت مسیح موعودؑ کے نشانوں اور اپنی رؤیا و کشوف اور قبولیت دعا کا بیان ہوتا۔ عجیب فرشتے چلتے پھرتے نظر آتے۔
٭ سکول میں میٹرک کا داخلہ تب جاتا جب قرآن کریم کا ترجمہ پڑھ کر طلبہ امتحان دیتے۔ لیکن جب 1946ء میں مَیں میٹرک سے فارغ ہوا تو میرے والد نے مجھے حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب سے ترجمہ پڑھنے کی ہدایت کی۔ مَیں نے اُن سے عرض کیا تو انہوں نے پوچھا کہ مَیں نے اُن کا انتخاب کیوں کیا ہے۔مَیں نے وجہ بیان کی تو انہوں نے مجھے روزانہ گیارہ بجے جامعہ میں آنے کا مشورہ دیا جہاں وہ مجھے نصف گھنٹہ ترجمہ پڑھاتے۔ میرے لئے یہ بات حیرت کا باعث تھی کہ اپنے گھر (جو نصف میل پر ہے) کی بجائے گرمیوں کی دوپہر میں دو میل دُور جامعہ میں بلاتے ہیں۔ لیکن انہوں نے فرمایا کہ مَیں نے چونکہ استاد کا انتخاب کیا ہے اس لئے جگہ اور وقت کے انتخاب کا حق استاد کا ہے۔ انہوں نے جیسے پڑھایا اُس سے مجھے قرآن پر غور کی عادت ہوگئی۔
٭ جب کالج میں داخل ہوا تو بیرون قادیان سے بھی بہت سے لڑکے وہاں آکر داخل ہوئے تھے اس لئے پہلے والا ماحول ختم ہوگیا۔ مَیں نے دوسروں کی دیکھا دیکھی سر کے بالوں کو انگریزی طرز پر کٹوایا۔ جس حجام سے مَیں حجامت بنواتا تھا انہوں نے پہلے تو میری بات ماننے سے انکار کردیا لیکن پھر میرے اصرار پر کہا کہ اس فعل کی تمام تر ذمہ داری مجھ پر ہوگی۔ کچھ دن بعد جب والد صاحب لاہور سے آئے تو میری حجامت دیکھ کر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ مَیں نے اسے رضامندی تصور کیا۔ اگلے روز جب انہوں نے مجھے بازار چلنے کو کہا تو بھی مَیں سمجھا کہ سوداسلف لینے جارہے ہیں۔ لیکن آپ مجھے سیدھے اُسی حجام کے پاس لے گئے اور فرمایا کہ مَیں آگے سے ہوکر آتا ہوں، تب تک اس کی ٹنڈ کردو۔ … چنانچہ ایسا ہی ہوا اور مجھے یہ سبق مل گیا کہ کیسے بھی حالات ہوں، دینی شعائر کا احترام میری اوّلین ذمہ داری ہے۔