قاضی فیملی امرتسر

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍مئی 2005ء میں محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کے قلم سے امرتسر کی قاضی فیملی کی دینی خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
قاضی فیملی امرتسر کے سربراہ حضرت قاضی ڈاکٹر کرم الٰہی صاحبؓ ایک عارف باللہ اور ہمدرد خلائق بزرگ تھے جنہیں 1898ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی سعادت عطا ہوئی اور 10 ؍اگست 1928ء کو اُن کی وفات ہوئی۔
حضرت مولانا سید عبدالماجد صاحب بھاگلپوریؓ (خسر حضرت مصلح موعودؓ) کے صاحبزادے حضرت پروفیسر سید عبدالقادر صاحب بھاگلپوریؓ ایم اے (اگست1887ء-26فروری 1978ء) نے اپنے والد معظم سے قبل ہی بذریعہ خط 1902ء میں بیعت کی توفیق پائی۔ پھر قادیان میں تعلیم حاصل کی اور 1905ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ پھر اسلامیہ کالج لاہور، ریون شا کالج اڑیسہ، پٹنہ کالج اور اسلامیہ کالج کلکتہ میں شاندار تدریسی خدمات سرانجام دیں، کلکتہ یونیورسٹی کی سینیٹ اور سینڈیکیٹ کے ممبر بھی تھے۔
وہ بیان فرماتے ہیں کہ 1905ء میں قادیان سے رخصت ہونے کے کچھ عرصہ بعد مَیں چھ سال تحصیل علم کے لئے علی گڑھ کالج میں داخل رہا۔ تعطیلات میں قادیان میں حاضری دیتا رہا۔ میرا قیام اپنے بعض ہم جماعتوں کے ساتھ امرتسر میں ہوتا تھا۔ اس طرح ڈاکٹر کرم الٰہی صاحبؓ کی صحبت وہم نشینی کا موقع بھی ملتا رہا۔ آپؓ ایک کشیدہ قامت، کشادہ جبیں، عریض الصدر، وجیہہ اور اپنی طرز گفتار اور پسندیدہ اطوار کی بناء پر بزرگی اور اسلامی زندگی کے بہترین نمونہ تھے۔ اور آپ کا دیکھنے والا، آپؓ کے اچھے شمائل کا پر تو آپ کے ظاہر سے بھی پالیتا تھا اور متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ آپؓ اُس وقت ملازمت سے سبکدوش ہو کر ڈاکٹری کے شغل میں مصروف تھے۔ آپؓ کی بردباری ، نیک خوئی، مصیبت زدہ بیماروں کی شکایات کی طرف خوش خوئی سے توجہ دینے کا اندازہ بآسانی کیا جاسکتا تھا۔ بارہا نہ صرف مریضوں کا علاج کرتے بلکہ اپنے پاس سے دوائیں بھی مہیا فرمادیتے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف احمدی احباب بلکہ مخالف بھی آپؓ کے گرویدہ تھے۔ ایک مرتبہ میری علالت کی آپکو اطلاع ہوئی تو آپؓ خود دوا لے کر آئے۔
اُس وقت جماعت میں امارت کا نظام رائج نہ تھا۔ تاہم آپؓ جماعت کی ہر پہلو سے نمایاں خدمت کرنے والے بزرگوں میں سے تھے۔ مسجد میں توجہ اور شوق سے تشریف لاتے۔ لباس میں نمائش نہ ہوتی۔ سفید عمامہ، صاف پاجامہ اور کرتہ اور کبھی کبھی صدری جو اس زمانہ میں مروج تھی زیب تن فرماتے تھے۔
آپؓ نہ صرف ایک معالج جسمانی تھے بلکہ صحیح معنوں میں اخلاقی اور دماغی تربیت کے بہترین ماہر تھے۔ آپ کے نظام مشاغل پر غور کر کے احساس ہوتا تھا کہ حسن تربیت کا راز صحیح اور کار آمد مشغولیت میں ہے۔
قادیان جانے والوں کے لئے امرتسر ایک ضروری گزرگاہ تھا۔ امرتسر کے دیگر احمدیوں کی طرح ڈاکٹر صاحبؓ بھی اس امر کا خیال رکھتے تھے کہ قادیان جانے والے احباب کو خاص آسانی میسر ہو چنانچہ بڑی کشادہ پیشانی سے حق مہمان نوازی ادا فرماتے تھے۔
……………………
حضرت ڈاکٹر قاضی کرم الٰہی صاحبؓ کے فرزند اکبر حضرت ڈاکٹر محبوب عالم صاحبؓ آف جے پور (1868ئ- 12مئی 1933ء) تھے جنہیں خاندان میں سب سے پہلے قبول احمدیت کی سعادت نصیب ہوئی۔ جبکہ چھوٹے بیٹے حضرت ڈاکٹر قاضی الحاج محمد منیر صاحب (جون1895ئ- 6؍مارچ1979ء) کو اپنے والد معظم کے وصال کے بعد 1947ء تک جماعت احمدیہ امرتسر کا امیر رہتے ہوئے شاندار خدمات کا موقع ملا۔ وہ قاضی فیملی میں احمدیت کی آمد سے متعلق بیان فرماتے ہیں کہ جہلم میں قیام کے دوران میرے والد حضرت ڈاکٹر کرم الٰہی صاحبؓ کا تعارف حضرت مولوی برہان الدین صاحبؓ سے ہوگیا تھا اور وہ آپ کو ملنے لاہور آیا کرتے تھے اور ٹریکٹ اور اشتہارات بھی لاکر سناتے تھے جن کا اُن کے جانے کے بعد بھی گھر میں تذکرہ رہتا تھا۔ جب آپ کے ماموںزاد بھائی مولوی عنایت اللہ صاحب احمدیؓ بھی سلسلہ میں داخل ہوگئے تو وہ بھی قادیان آتے جاتے وقت لاہور میں آپ کے پاس ٹھہرتے تھے اور آپ قادیان کی باتیں ان سے دریافت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ جب مکرم ڈاکٹر محبوب عالم صاحب (جے پور) نے، جو سن فراست تک پہنچ چکے تھے، گھر میں ہونے والی گفتگوؤں سے متأثر ہوکر کسی قدر جھجک کے ساتھ قادیان جانے کی اجازت چاہی تو والد صاحب نے بڑی خوشی سے کرایہ دے کر ان کو رخصت کیا۔ جہاں انہوں نے بیعت کرلی۔ اُن کی واپسی پر والد صاحب اس سفر کی تمام باتیں اور قادیان کے حالات ان سے بڑے غور سے سنتے رہے۔ پھر آپ نے اپنے دوسرے بیٹے محمد اکرم صاحب (انسپکٹر پولیس ڈیرہ دون) کو اُن کے دادا (یعنی اپنے والد صاحب) کے ہمراہ قادیان بھیجا تو وہ بھی قادیان جاکر سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوگئے۔ اس کے بعد جلد ہی آپ نے بھی غالباً لاہور میں باقاعدہ طور پر بیعت کی توفیق پائی۔
………………………
حضرت قاضی ڈاکٹر کرم الٰہی صاحبؓ کے پوتے اور حضرت قاضی محمد شریف صاحبؓ (1892ء- 21؍جولائی 1975ء) کے بیٹے محترم میجر محمود احمد صاحب نے کوئٹہ میں احمدیت کی خاطر عین جوانی میں شہادت کا عظیم رُتبہ پایا۔ آپ عہد درویشی کے ابتدائی قیامت خیز دَور میں صدر انجمن احمدیہ قادیان کے ممبر بھی رہے تھے اور شاندار طبی خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ ازاں بعد حضرت مصلح موعودؓ کی اجازت سے پاکستان تشریف لائے اور کوئٹہ میں کلینک کھولا۔
17؍اگست 1948ء کو جب سیدنا حضرت مصلح موعودؓ اور بعض دیگر افراد خاندان مسیح موعودؑ کوئٹہ میں قیام فرما تھے تو انہیں کوئٹہ میں ہی شہید کردیا گیا۔ اس المناک حادثہ پر پاکستانی پریس خصوصاً نظام، احسان اور انقلاب نے اشتعال پھیلانے اور چھرا گھونپنے والے بدبخت عناصر کی پرزور مذمت کی۔ تاہم موقع پر موجود گواہان کے شہادت نہ دینے پر مجرم گرفتار نہ ہوسکے۔ 1953ء میں تحقیقاتی عدالت کے فاضل جج صاحبان نے اپنی رپورٹ میں شہید مرحوم کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ : ’’ان کی نعش کے پوسٹ مارٹم معائنہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے جسم پر کند اور تیز دھار والے ہتھیاروں سے لگائے ہوئے چھبیس زخم تھے۔‘‘
حضرت قاضی ڈاکٹر کرم الٰہی صاحبؓ نے اپنے وصال کے وقت آٹھ فرزند اور 4بیٹیاں یادگار چھوڑے تھے جو خدا کے فضل سے اخلاص و فدائیت میں ایک دوسرے سے بڑھ کر تھے۔ نیز آپؓ کے 19پوتے 11 پوتیاں 5پڑپوتے اور 6پڑپوتیاں بھی موجود تھے جبکہ نواسے نواسیاں اور اُن کی اولاد اس کے علاوہ تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں