قبائل عاد اور ثمود
ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا اپریل 2004ء میں مکرم ڈاکٹر میاں محمد طاہر صاحب کا ایک تحقیقی مضمون شامل اشاعت ہے جس میں عاد اور ثمود قوموں کے بارہ میں قرآنی تعلیمات کی روشنی میں بحث کی گئی ہے۔
عاد اور ثمود نامی قوموں کا ذکر قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر آیا ہے۔ بعض آیات میں تو ان کو سزا دئیے جانے کا تذکرہ ہے اور بعض آیات میں ان کی صنعتوں کا ذکر کہ وہ کیا کرتے تھے اور جس پر وہ فخر کرتے تھے اور بعض آیات میں سزا کیسے دی گئی اور کیوں دی گئی کا ذکر ملتا ہے۔
اگر ان سب آیات کو پیش نظر رکھا جائے تو اس قوم کی نشاندہی بھی ہوجاتی ہے کہ یہ لوگ کون تھے اور کہاں پہاڑوں کو کاٹ کر مکان ، محل، قلعے اور شہر پناہ بناتے تھے اور ان پر فخر کرتے اور اِتراتے تھے اور جب ان پر 8 دن اور 7راتیں ہوا چلائی گئی تو وہ قوم مکمل طور پر تباہ ہوگئی اور کھجور کے کھوکھلے تنے کے برابر ہوگئے۔چونکہ یہ قومیں بنی اسرائیل میں سے نہیں تھیں اس لئے ان کا اور ان کی طرف بھجوائے جانے والے انبیاء کا ذکر بائبل میں نہیں ملتا۔
عاد کی قوم کی طرف حضرت ھود علیہ السلام اور ثمود کی طرف حضرت صالح علیہ السلام مبعوث فرمائے گئے۔ قرآن کریم میں متعدد جگہ ان کے عمارتیں بنانے کا ذکر آتا ہے کہ وہ پہاڑ کھود کھود کر بڑے بڑے محل اور فصیلیں بناتے تھے۔ ان پر عذاب کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ثمود اور عاد نے بھی قارعہ کو جھٹلایا تھا (جو اُس زمانے کے عذاب کی خبر تھی)۔ چنانچہ ثمود ایک ایسے عذاب سے ہلاک کئے گئے جو شدت میں انتہاء کو پہنچ گیا تھا۔ اور عاد ایک ایسے عذاب سے ہلاک کئے گئے جو ہوا کی صورت میں آیا تھا جو یکساں چلتی جاتی تھی اور سخت تیز تھی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ مغربی محققین کہتے ہیں کہ ہمیں عاد قوم کا نشان نہیں ملتا اس لئے عاد قوم کوئی تھی ہی نہیں ۔ عاد قوم ایک قوم نہ تھی بلکہ یہ قوموں کا مجموعہ تھی۔ جیسے آریہ قوم کوئی ایک قوم نہ تھی، آریہ لوگ وہ تھے جو مشرقِ وسطیٰ سے جسے آج کل ترکی کہتے ہیں ہجرت کر کے ہندوستان میںداخل ہوئے تھے۔ یہ ایک گروہ یا ایک قوم نہ تھی۔ بلکہ قوموں کا مجموعہ تھا جو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جابسے۔ انہوں نے اپنے قبیلے کے نام کا اظہار کیا لیکن آریہ کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ اسی طرح عاد ایک عام نام تھا اس میں مختلف قبیلے شامل تھے اور ہو سکتا ہے کہ ثمود بھی اسی عادکا ہی ایک قبیلہ ہو جو پھر ترقی کرتے کرتے بہت کامیاب اور بڑا ہو گیا۔ ثمود عاد کے بعد ہوئے اور انہوں نے انہی بنیادوں پر اور انہیں شہروں پر حکومت کی اور وہی کام کئے اور اسی صنعت وحرفت میں ترقی کی۔ یعنی پہاڑوں چٹانوں کو کاٹ کر مکانات، محلات، مزار، دوکانیں، کھیلوں کے میدان، فصیلیں اور قلعے بناتے تھے۔ اس قوم کا حشر وہی ہوا جو عاد کا ہوا تھا یعنی تباہ کر دئیے گئے۔
عاد اور ثمود کے بسنے کا امکان کہاں ہوسکتا ہے؟ ان دنوں تاریخ لکھنے کا تو کوئی رواج نہ تھا، ہاں کتبوں پر لکھنے کا رواج تھا۔ ثمود قوم کے کچھ کتبے دریافت ہوئے ہیں لیکن اس پر تحریرات نہیں ہیں۔ دنیا میں تین مقامات ایسے ہیں جہاں اُن کے آثار پائے جانے کے امکانات ہو سکتے ہیں۔
ایک تو ترکی میں لاکھوں کی تعداد میں تکونی یا مخروطی چٹانیں ہیں جن کو اندر سے کھوکھلا کر کے مکانات بنائے گئے تھے۔ اب بھی جن میں لوگ رہتے ہیں لیکن نہ تو ان سے محلات بن سکتے ہیں نہ فصیل بن سکتی ہے اور نہ ہی ان کی تعمیرات اور صناعی پر کوئی فخر کرسکتا ہے۔ اس قسم کی چٹانوں کا نام Capadoeiaہے۔ یہ تقریباً سارے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں اور لاکھوں سال قبل آتش فشاں پہاڑ کے پھٹنے اور لاوا کے بہنے سے بنی ہیں۔ ان کی تباہی کے کوئی آ ثار بھی نظر نہیں آتے۔ اس لئے یہ ملک یا مقام وہ نہیں ہے جسے عاد اور ثمود کا گھر کہہ سکیں۔
یمن میں بھی ایک ابؔ شہر ہے جو ریت میں دَب چکا ہے اور اس کے نشانات کے علاوہ کوئی اور چیز نظر نہیں آتی۔ نہ تو چٹانیں ہیں اور نہ کوئی شہر پناہ کے آثار ملتے ہیں۔ کم ازکم پہاڑ تو نظر آنا چاہئے۔
تیسری جگہ شرقِ اردن میں ہے اس کا نام Petra ہے۔ انسائیکلوپیڈیا برٹینکا میں Under Middle Eastern Religionکے تحت لکھا ہے کہ مسلمان اسے ثمود قوم کی جگہ بتاتے ہیں لیکن یہ غلط ہے۔ انسائیکلوپیڈیا میں اس کے غلط ہونے کی کوئی وجہ نہیں لکھی لیکن تعمیراتی بیانات کے لحاظ سے جو باتیں قرآن مجید میں ہیں وہ سب اس کے اوپر پوری اترتی ہیں۔
قرآن مجید سے پتہ چلتا ہے کہ عاد کی قوم کے بعد ثمود کی قوم آئی۔ یہ دونوں ایک دوسرے کا حصہ تھیں یا ایک قوم۔ اس کا علم نہیں ہے۔ ثمود قوم کے سکے بھی دریافت ہوئے ہیں۔ یہ دونوں قومیں صنعت وحرفت کے لحاظ سے ایک ہی قسم کے کام کرتی تھیں۔ دونوں قوموں کے انجینئرچٹانوں اور ٹیلوں کو کا ٹ کر مکانات، محلات، قبرستان اور کھیلوں کے میدان بناتے تھے۔ اور اس صنعت پر بہت فخر کرتے تھے۔ ثمود قوم کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت صالحؑ اور عاد قوم کے قبیلوں کی طرف حضرت ھودؑ کو مبعوث فرمایا تھا۔ سورۃ ھود کی تفسیر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے لکھا ہے کہ یہ قومیں عربی النسل تھیں۔ چنانچہ انسائیکلوپیڈیا برٹینکا میں بھی یہی لکھا ہے کہ ثمود قوم عربی قوم تھی جو شاید حضرت اسماعیلؑ کے بڑے بیٹے سے شروع ہوئی تھی۔ حضرت اسماعیلؑ کے بارہ لڑکے تھے۔ جن سے بارہ قبیلے بنے۔ بڑا لڑکا بنایوت تھا۔ انگریزی بائبل میں بڑے لڑکے کا نام Neba Joth لکھا ہے۔ اور یہ اُس کا قبیلہ تھا جو عاد اورثمود قوم کا بانی مبانی بنا۔ چنانچہ اس قوم کا انگریزی نام Nabataensتھا۔ انسائیکلوپیڈیا کے مطابق ابتداء میں یہ قبیلے بدوؤں کی طرح مدین اور حجاز کے علاقوں میں گھومتے پھرتے تھے۔ اور پھر آہستہ آہستہ Negerشمالی عرب اور اردن میں بس گئے۔ ان کا دارالخلافہ Petraتھا۔ جو اردن میں واقع ہے۔ ان کی زبان Aramie تھی جو کہ 300-600 قبل مسیح ان علاقوں میں بولی جاتی تھی۔ یہی (کچھ فرق کے ساتھ) حضرت عیسیٰؑ کی بھی زبان تھی۔ اس قوم کی بڑی طاقت اس وقت ہوئی جب ان کا بادشاہ Aretas IVتھا۔ جس نے قبل مسیح سے40 عیسوی تک حکومت کی۔
عاد اور ثمود کی عمارات کی خوبصورتی اور صنعت کو دیکھ کر آج بھی انسان حیران ہوجاتا ہے کہ اس قوم نے کتنی ترقی کی ہوگی اور پھر یہ کہ ان میں پانی اور ہواکی آمد ورفت کا بھی کوئی طریقہ ہوگا۔ یہ عمارات آج بھی نہایت خوبصورت سرخ اور گلابی رنگ کی ہیں۔
دارالحکومت Petra ایک زمانہ تک دنیا کی آنکھوں سے چھپا رہا۔ اس کا علم صرف صحرا میں زندگیاں گزارنے اور گھومنے پھرنے والے بدوؤں کو تھا۔ یا پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں اس کا تذکرہ کیا اور نبیوں کا انکار کرنے پر ان بستیوں کی تباہی کا بھی ذکر کیا۔ نبیوں کا انکار کرنے والا اللہ تعالیٰ کی سزا سے بچ نہیں سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ اور اس کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ لیکن چونکہ دونوں انبیاء اسرائیلی نہیں تھے اور نہ ہی اسرائیل کے لئے مبعوث کئے گئے تھے اس لئے بائبل میں ان کا ذکر نہیں ہے۔ یہ قومیں عربی تھیں اس لئے ان میں انہی میں سے انبیاء آئے۔
Petra یوں دریافت ہوا کہ اگست 1882ء میں سوئٹزرلینڈ کا باشندہ جان برک ہارڈ سیاحت کے لئے نکلا تو کچھ عرب قبائلیوں سے اُس کی ملاقات شام سے مصر جاتے ہوئے ہوئی۔ ان بدوؤں نے بتایا کہ یہاں ایک وادی ہے جو وادی موسیٰ کے نام سے مشہور ہے اور وہاں پرانی عمارات کے آثار پائے جاتے ہیں۔ اس پر اُسے تجسس ہوا اور اس نے عربوں کا حلیہ اختیار کرکے داڑھی بڑھالی اور سر کا عمامہ اور باقی لباس بھی وہی پہنا۔ پھر ایک عرب بدو کو معمولی مشاہرہ پر رکھ لیا۔
اسے شام سے قاہرہ کے سفر کے دوران راستہ تبدیل کرنے کے لئے کوئی وجہ چاہئے تھی تاکہ عرب بدو اسے لُوٹ کر مار ہی نہ ڈالیں۔ چنانچہ اس نے عرب بدوؤں کو بتایا کہ وہ ایک ساحر ہے اور خزانہ کی تلاش میں ہے اور اس کا عہد ہے کہ وہ حضرت ہارونؑ کی قبر پر ایک بکری کی قربانی دے گا۔ چنانچہ وہ ایک بکری، کچھ پانی اور خوراک اپنے ہمراہ لے کر بدوؤں کے ساتھ وادی موسیٰ میں بڑھتا گیا یہاں تک کہ ان کے سامنے پہاڑ کی دیوار کھڑی تھی۔ پھر اسے محسوس ہوا کہ وہ ایک کھائی کے دہانے پر کھڑا ہے جس کا راستہ ایک درّہ کی طرح پیچیدہ ہے۔ اسے یہاں کے لوگ SIQکہتے تھے۔ عربی کی لغت میں اس سے ملتے جلتے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پانی جمع کرنے کی جگہ تھی جہاں سے زمین سیراب کی جاتی تھی۔ اس میں پانی وادی موسیٰ کے دریا سے لایا جاتا تھا۔ یہ جگہ تنگ تھی اور آسمان تھوڑا سا دکھائی دیتا تھا۔ آخر تقریباً 25منٹ تک اس میں چلنے کے بعد انہیں دوسری طرف 90فٹ بلند نظر آئی۔ اس سے آگے SIQکا بیرونی منہ تھا۔ یہاں پر پتھروں کی پختہ سڑک تھی اور بڑے بڑے ستونوں کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔ آگے گلابی اور سرخ رنگ کے محل، Gym، معبد خانے، مکان اور مقبرے اور تھیٹر پھیلے ہوئے تھے اور شہر کی فصیل کے بھی آثار پائے جاتے تھے۔ یہ تمام عمارات جنہوں نے دنیا کو حیران کر دیا، چٹانوں اور پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی گئی تھیں اور یہی وہ تعمیرات اور صناعی تھی جس پر وہ فخر کرتے تھے۔ اس شہر کی دریافت قرآن مجید کی حقانیت کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ اِن قوموں کی ترقی کا ذکر کرکے فرماتا ہے کہ ہم نے عاد پر ہوا اور ثمود پر گونج دار آوازکا عذاب بھیجا جس نے ان کو تباہ کردیا۔
جان برک ہارڈ کے بعد ایک فرانسیسی Leon de Laborle اور ایک امریکن ایڈورڈ رابنسن جو بائبل کا محقق تھا اور ایک انگریز مصور ڈیوڈ رابرٹ یہاں آئے تھے۔ جس کے بعد تمام دنیا سے سیاح آنے لگ گئے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار