قبولِ احمدیت کی داستانیں
مجلس انصاراللہ امریکہ کا سہ ماہی مجلہ ’’النحل‘‘ کا خزاں 1995ء کا شمارہ عالمی بیعت کی تقریب کے حوالہ سے شائع ہوا ہے۔ مکرم عبدالرقیب ولی صاحب کی قبول احمدیت کی داستان بھی اسی شمارہ میں شائع ہوئی ہے جو 1932ء میں ایک پادری خاندان میں پیدا ہوئے۔ 1949ء میں سکول کو خیرباد کہہ کر گمراہ موسیقاروں کے ایک گروپ میں شامل ہوگئے۔ آپکے ایک ساتھی کو جب قرآن شریف حاصل کرنے کی خواہش پید اہوئی تو ایک مسلمان کے ذریعہ آپ کا تعارف احمدیہ مشن سے ہوا جہاں محترم عبدالقادر ضیغم صاحب سے ختم نبوت کے موضوع پر گفتگو کرنے کے چند دن بعد آپ نے قبول احمدیت کا فیصلہ کرلیا۔ انہی دنوں (1958ء میں) کتاب ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘ کا بھی مطالعہ کیا اور فوراً بیعت فارم پُر کردیا۔
آپ 1974ء میں گریجوایٹ ہوئے اور پھر قادیان سے آنے والے ایک دوست مکرم بشیر صاحب سے ملاقات ہوئی جنہوں نے آپ کو قادیان کی زیارت پر آمادہ کیا اور اپنی ایک خواب بیان کی کہ آپکی شادی چھ ماہ میں قادیان میں ہو جائے گی۔ یہ خواب بعینہٖ پوری ہوئی۔ آپ سعودی عرب اور نائیجیریا میں انگریزی کے معلم رہ چکے ہیں اور آجکل کیلیفورنیا سٹیٹ کی تین جیلوں میں مسلم امام کی حیثیت سے خدمت بجا لا رہے ہیں۔
ایک اور نو احمدی جوڑے مکرم سلیم عبدالہیمن صاحب اور ان کی اہلیہ اپنی داستان میں بیان کرتے ہیں کہ سلیم صاحب کو چوری کے جرم میں چھ ماہ قید کی سزا ہوئی۔ قید کے دوران وہ یہ سوچنے لگے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو اتنا بڑا مشن سپرد کیا گیا لیکن ان کی عمر اتنی مختصر کیوں تھی؟ اس سوال کے جواب کی تلاش میں انہیں قبول احمدیت کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ آجکل نوجوانوں کی راہنمائی کے لئے قائم ایک مرکز میں کونسلر ہیں۔
۔ … ٭ … ٭ … ٭ … ۔
ماہنامہ ’’النصیرؒؒ جولائی 1995ء میں برادرم زیڈ۔ایم۔جلیل اپنی قبول احمدیت کی داستان میں بیان کرتے ہیں کہ انہیں احمدیوں کے جذبہ اخوت نے بہت متأثر کیا۔ افرادِ جماعت میں محبت، پیار اور مدد کے جو جذبات پائے جاتے ہیں وہ قابلِ ستائش ہیں۔ نیز احمدی اسلامی تعلیمات کو جس بردباری اور جذبہ احترام کے ساتھ دوسروں تک پہنچاتے ہیں وہ طریق دوسروں کے لئے بہت آسانی پیدا کر دیتا ہے۔