قبولیت دعا کا اعجاز
حضرت مولاناغلام رسول صاحب راجیکیؓ نے قادیان میں ایک مکان بنوایا جس کے لئے قرضہ ایک احمدی دوست مکرم صاحب خان صاحب نون سے حاصل کیا ۔ جب حضرت مولوی صاحبؓ نے قرضہ کی رقم کی واپسی کا طریق پوچھا کہ یکمشت ادا کی جائے یا قسط وار تو مکرم خان صاحب نے کہا کہ میں نے یہ رقم قرضہ کے طور پر دی ہی نہیں اس لئے واپس نہیں لینی، بس آپ میرے لئے دعا کریں۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے فرمایا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر کوئی خاص حاجت بتائیں جس کے لئے دعا کروں۔ ملک صاحب نے عرض کیا کہ مجھے افسر مال بنے ہوئے بہت دیر ہوگئی ہے اور ڈپٹی کمشنر بننے کا چانس ہے لیکن ایسا ہو نہیں رہا۔ دوسرے میرے رشتہ دار چاہتے ہیں کہ مجھے کوئی خطاب بھی ملے اور تیسرے میرے اولاد نرینہ نہیں ہے اس کے لئے بھی دعا کریں۔ چنانچہ حضرت مولوی صاحبؓ نے ان مقاصد کے لئے دعا کی اور آپؓ کو بتایا گیا کہ ملک صاحب ڈپٹی کمشنر بن جائیں گے اور ان کی پوسٹنگ شہر گوجرانوالہ میں ہوگی، ان کو خطاب بھی ملے گا اور اللہ تعالیٰ ان کو بیٹا عطا فرمائے گا جس کا نام احمد خان ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور مکرم خان صاحب گوجرانوالہ میں ڈپٹی کمشنر بنائے گئے اور آپ کی تقرری کے دوران شہر کے ہندؤں اور سکھوں میں کشیدگی پیدا ہوئی تو آپ اور بعض دیگر حکومت کے افسران کی کوششوں سے فساد کا خطرہ ٹل گیا جس کے نتیجہ میں آپ کو حکومت کی طرف سے خان صاحب کا خطاب ملا۔ پھر آپ گوجرانوالہ سے بطور ڈپٹی کمشنر ریٹائرڈ ہوکر سرگودھا میں آبسے جہاں 1949ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اولاد نرینہ سے نوازا۔ آپ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نام رکھنے کی درخواست کی جس پر حضورؓ نے فرمایا ’’احمد خان رکھ لو‘‘۔
قبولیتِ دعا کا یہ واقعہ محترم مولانا منیرالدین احمد صاحب نے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍اپریل 1997ء میں اس حوالہ سے تحریر کیا ہے کہ آپ کو بچپن میں محترم ملک صاحب خان صاحب نون سے ملنے کا موقع بھی ملا اور بعد ازاں حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ سے براہِ راست یہ واقعہ سننے کی سعادت نصیب ہوئی۔