قبولیت دعا

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کی یکم اپریل 1995ء کی اشاعت میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کا خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍جولائی 1916ء شائع ہوا ہے جس میں حضورؓ قبولیت دعا سے متعلق بعض ایسے طریق بیان فرماتے ہیں جن پر عمل کرنے سے انسان کی دعاؤں کی قبولیت بڑھ جاتی ہے
مثلاً پہلا یہ کہ انسان خدا تعالیٰ کی قربت حاصل کرے اور ایسا اسی وقت ہوسکتا ہے جب انسان اپنے رب کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔
دوسرا یہ کہ خدا پر ایمان لائے… بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ زائد الفاظ ہیں کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتا ہے وہ ایمان بھی لایا ہے لیکن دراصل ایک ناقص ایمان والا شخص جو رسمی طور پر شریعت کے احکام پر عمل کرتا ہے یا ایک دہریہ جو لوگوں کے ڈر سے نماز پڑھ لیتا ہے ، ایمان لانے والوں میں داخل نہیں ہوسکتا۔ پس یہاں یہ مراد ہے کہ انسان شریعت کے تمام احکامات پر عمل کرے اور دعائیں مانگے مگر ساتھ ہی اس بات پر ایمان رکھے کہ خدا تعالیٰ دعائیں قبول کرتا ہے۔ بعض لوگ بڑے خشوع و خضوع سے دعائیں کرتے ہیں مگر پھر یہ کہتے ہیں کہ فلاں اتنا بڑا کام ہے اس کے متعلق دعا کہاں سنی جائے گی یا یہ کہ ہم گناہ گار ہیں ہماری دعا خدا کہاں سنتا ہے۔ اس قسم کے شیطانی خیالوں سے دعا میں قبولیت نہیں رہتی۔
حضور مزید فرماتے ہیں کہ دعا مانگنے سے کبھی بھی نہیں رکنا چاہئے سوائے اس کے کہ کشف ہو جائے کہ یہ دعا مت کرو یا یہ کہ جس مقصد کے لئے دعا کی جائے اس سے نفرت پیدا ہو جائے یا یہ کہ جس بات کے لئے دعا کی جائے وہ شریعت کے محذورات سے وابستہ ہو جائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں