قدیم ترین سائنس … علم فلکیات
انسان نے سب سے پہلے آسمان پر نظر آنے والے مختلف اجسام پر غور شروع کیا اور سورج، چاند اور ستاروں کی گردشوں کو ریکارڈ کرنا شروع کیا۔ تاریخ میں جو سب سے پہلا گرہن ریکارڈ کیا گیا ہے وہ 2137 ق م میں ہونے والا سورج گرہن ہے۔ انسان سورج کی حرکت کی مناسبت سے دن کے وقت کا اندازہ کرتا تھا اور چاند کے نکلنے پر مہینہ کی بنیاد رکھتا تھا۔ ہفتے کے سات نام اُن سات فلکی اجسام کے نام پر رکھے گئے جو حرکت کرتے تھے۔ علم فلکیات کی وجہ سے انسان طول بلد اور طول عرض کی پیمائش کے قابل ہوسکا اور اس طرح جغرافیہ کی بنیاد پڑی۔ اسی طرح بحری راستوں کو اختیار کرنے اور نقشوں کی تیاری میں علم فلکیات سے مدد لی گئی۔ چنانچہ زمین اور دیگر اجسام فلکی کے بارہ میں مختلف دریافتیں ہزاروں سال سے ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ اس موضوع کے بارہ میں محترم پروفیسر صالح محمد الہ دین صاحب کا ایک مضمون ٹیکنیکل میگزین 1999ء کے انگریزی حصہ میں شامل اشاعت ہے۔
علم فلکیات کی وجہ سے بہت سے بنیادی سائنسی قوانین اخذ کئے گئے۔ مثلاً کشش ثقل کے بارہ میں نیوٹن کا قانون جس میں کوئی سے دو اجسام کے درمیان پیدا ہونے والی کشش کی پیمائش کی گئی ہے۔ اسے سائنس کی عظیم ترین دریافت بھی کہا گیا ہے۔ تاہم نیوٹن کا یہ کہنا تھا کہ اِس میدان میں اُس کا قد اس لئے بڑا نظر آ رہا ہے کیونکہ وہ بہت سے قد آور ماہرین فلکیات کے کندھوں پر کھڑا ہے۔ چنانچہ ڈیڑھ سو سال قبل مسیح میں ایک یونانی ماہر فلکیات Ptolemy نے علم فلکیات پر ایک کتاب لکھی جس کی تیرہ جلدیں تھیں۔ اُس نے اس علم کو جیومیٹری کے علم میں پیش کیا جس سے سیاروں کی گردش کے بارہ میں پیشگوئی ممکن تھی تاہم اُس کا خیال تھا کائنات کا مرکز زمین ہے۔ پھر عربوں نے الجبرا اور ٹریگنومیٹری کی مدد سے علم فلکیات کو ترقی دی۔ 1543ء میں کوپرنیکس نے سورج کے مرکز میں ہونے کا نظریہ پیش کیا۔ اگرچہ یہ نظریہ بہت دیر کے بعد قبول کیا گیا۔ پھر ایک ماہر فلکیات Tycho Brahe (وفات 1601ء( نے کئی سیاروں کی گردش کا ریکارڈ جمع کیا جس پر مزید کام کرتے ہوئے ایک اور سائنسدان کیپلر نے سیاروں کی گردش کے تین بنیادی قوانین وضع کئے اور اس میدان میں انقلاب برپا کردیا۔
نیوٹن نے کیپلر اور گیلیلیو کے قوانین کی مدد سے کشش ثقل کا قانون دریافت کیا۔ اگرچہ اس دریافت کا آغاز سیب گرنے کے مشہور تاریخی مشاہدہ سے ہوا تھا۔ نیوٹن نے بیان کیا کہ سیب کے زمین پر گرنے کی وجہ وہی کشش ہے جس نے چاند کو زمین کے گرد چکر لگاتے رہنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ پھر نیوٹن نے قوانین حرکت بھی دریافت کئے۔ ان قوانین کی بنیاد پر سائنس کی کئی شاخیں وجود میں آئیں۔ پھر کشش ثقل کا قانون مختلف تجربات میں درست ثابت ہوا لیکن سورج کے گرد حرکت کرنے والے سیاروں میں سے مریخ کے بارہ میں مشاہدہ کچھ مختلف تھا۔ اس اختلاف کو دور کرنے کے لئے جب نیوٹن کی میکینکس کو پیش نظر رکھا گیا تو ایک خیالی سیارہ وجود میں آیا جسے Vulcan کا نام دیا گیا۔ اگرچہ یہ سیارہ دریافت نہیں ہوسکا تاہم اس مسئلہ کو آئن سٹائن کی تھیوری آف ریلیٹیویٹی نے حل کردیا۔
علم فلکیات نے Spectroscopy اور ایٹم کی تھیوری کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ علم فلکیات سے یہ ثابت ہوگیا کہ مختلف کہکشاؤں میں پھیلے ہوئے ستارے اور سیارے اُنہی عناصر سے تشکیل پاتے ہیں جنہیں ہم زمین پر بھی موجود پاتے ہیں جبکہ پہلے خیال تھا کہ مختلف ستاروں کی خصوصیات اُن کے مخصوص عناصر سے بنے ہوئے ہونے کی وجہ سے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ثابت ہوا کہ کائنات میں ہر جگہ کیمیائی قوانین یکساں طور پر عمل کرتے ہیں۔ دراصل کائنات ایک بہت بڑی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال ہو رہی ہے جس میں بیک وقت مختلف طبیعاتی اور کیمیائی عوامل جاری ہیں۔ پس کہا جا سکتا ہے کہ علم فلکیات ہی تمام سائنسی علوم کی ماں ہے۔
بیسویں صدی میں طاقتور دوربینوں کی مدد سے یہ مشاہدہ کیا گیا کہ ہماری گیلیکسی میں سورج کی حیثیت ایک معمولی ستارہ کی ہے اور اس طرح کے ایک سو بلین ستارے گیلیکسی میں موجود ہیں نیز سورج کا اپنی گیلیکسی کے مرکز سے فاصلہ قریباً تیس ہزار نوری سال کے برابر ہے اور اسے گیلیکسی کے مرکز کے گرد اپنا ایک چکر مکمل کرنے میں قریباً دو سو ملین سال درکار ہوتے ہیں۔دوربین کی ترقی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ کائنات میں تاحد نظر لاانتہا تعداد (یعنی بلین) میں گیلیکسیز موجود ہیں۔ بعض سیاروں کی روشنی کئی بلین سال کا سفر طے کرکے اب زمین تک پہنچ پائی ہے اور ایسے سیاروں کا مطالعہ یہ معلومات مہیا کرتا ہے کہ زمین اپنے وجود میں آنے کے بعد کس کس مرحلہ سے گزر کر موجودہ شکل تک پہنچی ہے۔
اب ماہرین فلکیات کی کوشش ہے کہ کسی طرح کائنات میں موجود کسی دوسرے سیارے پر بھی زندگی کے آثار کا پتہ چلائیں۔ حال ہی میں بنائی جانے والی خلائی دوربین کی مدد سے کائنات کے رازوں کی نقاب کشائی پہلے کی نسبت ہزاروں گنا بڑھ جائے گی اور اس سے اُن سیاروں کا مشاہدہ بھی ممکن ہو جائے گا جو ہمارے قریبی ستاروں کے گرد محو گردش ہیں۔
علم فلکیات نے انسان کو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ وہ خدا کی ہستی پر ایمان لے آئے۔ گیلیلیو سے لے کر اب تک کائنات کے حسن کا مشاہدہ کرنے والے بے شمار سائنس دان خدا کے وجود کے قائل ہیں اور مانتے ہیں کہ خدا نے کائنات میں کچھ بھی بلاضرورت پیدا نہیں کیا۔