قرآن کریم کے اعراب اور نقاط کا تاریخی جائزہ
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’قرآن کریم وہ یقینی اور قطعی کلام الٰہی ہے جس میں انسان کا ایک نقطہ یا ایک شعشہ تک دخل نہیں اور وہ اپنے الفاظ اور معانی کے ساتھ خدائے تعالیٰ کا ہی کلام ہے‘‘۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22؍ستمبر 2000ء میں شامل اشاعت ایک تفصیلی مضمون میں مکرم عبدالسمیع خان صاحب نے قرآن کریم میں اعراب اور نقاط لگائے جانے کے بارہ میں تفصیلی تاریخی جائزہ پیش کیا ہے۔
قدیم عرب میں اگرچہ اعراب و نقاط کا وجود تھا لیکن بعد کے کسی زمانہ میں اسے ترک کردیا گیا۔ حضرت ابن عباسؓ کی ایک روایت کے مطابق نقطوں کے موجد کا نام عامر بن جدرہ تھا جو قبیلہ بولان سے تعلق رکھتا تھا۔ قرآن کریم کی اوّلین کتابت میں بھی نقاط اور اعراب نہیں لگائے گئے تھے کیونکہ اُس وقت جو عربی خط رائج تھا وہ ان کے بغیر ہوتا تھا۔ اِس خط کی نسبت حیرہ سے ہے جو کوفہ سے تین میل کے فاصلہ پر ہے اور اب نجف کہلاتا ہے۔ بعد میں یہی خط ’’خطِ کوفی‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ قوی قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں خطِ کوفی میں ہی قرآن کریم لکھا گیا۔ اگرچہ اُس زمانہ کا قرآن کریم کا کوئی نسخہ محفوظ نہیں ہے لیکن آنحضورﷺ کے بادشاہوں کے نام خطوط اور دیگر مصاحف بھی خط کوفی میں ہی لکھے گئے ہیں جو آج بھی محفوظ ہیں۔
حضرت عثمانؓ کے دَور میں لکھا جانے والا قرآن کریم کا نسخہ جو مصحفِ امام کہلاتا ہے، یہ بھی خطِ کوفی میں ہی لکھا گیا ہے۔ اس میں اعراب اور نقاط نہیں لگائے گئے لیکن اس کا تلفّظ وہی تھا جو آج بھی رائج ہے۔ اُس زمانہ میں نقاط اور اعراب کے بغیر پڑھنے پر لوگ پوری طرح قادر تھے بلکہ بسااوقات نقطے ڈالنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔
جب عجمی اقوام نے اسلام قبول کیا تو مادری زبان عربی نہ ہونے کی وجہ سے وہ قرآن کریم کی تلاوت میں غلطیاں کرنے لگے۔ اس پر حضرت علیؓ نے ابوالاسود دئلی کو چند قواعد بتاکر اس فن کی تدوین پر مامور کیا اور اس طرح ’’علم النحو‘‘ کے ابتدائی اصول وجود میں آئے۔ قرآن کریم پر نقاط اور اعراب لگانے کا کام بھی ابوالاسود کے ذریعہ ہی سرانجام پایا۔ ابوالاسود بصرہ کے قاضی تھے اور انہوں نے نقط مصاحف پر ایک رسالہ بھی تحریر کیا تھا۔ آپ 69ھ میں فوت ہوئے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ، حضرت ابن عمرؓ ، حضرت قتادہؓ، حضرت حسن بصری، ابن سیرین اور دیگر بہت سے علمائے سلف میں سے اکثر قرآن کریم پر نقاط یا دیگر علامات لگانا مکروہ بلکہ ایک طرح کی بدعت سمجھتے تھے۔ حضرت امام مالکؓ نیم خواندہ لوگوں یا بچوں کے لئے نقاط و علامات لگانا جائز سمجھتے تھے لیکن بالغوں کے لئے اسے جائز نہیں سمجھتے تھے۔ مگر لوگ آہستہ آہستہ نقطوں اور اعراب والے قرآن کی طرف راغب ہوتے گئے اور علماء نے بھی اس کو پسندیدہ قرار دیدیا۔
اس سلسلہ میں دوسرا قدم عبدالملک بن مروان نے اٹھایا۔ اسی طرح حجاج بن یوسف کی خدمات بھی قابل ذکر ہیں جس کی سرپرستی میں یہ کام ابوالاسود کے دو شاگردوں یحییٰ بن یعمر اور نصر بن عاصم نے آگے بڑھایا۔ نصر نے نقطے وضع کرکے حروف کے مابین اشتباہ کو ختم کردیا۔ آپ بصرہ کے قاری تھے۔
آغاز میں اعراب کی بجائے بھی نقاط ہی استعمال کئے جاتے تھے لیکن اُن کا رنگ سیاہ کی بجائے سرخ یا قرمزی ہوتا تھا۔ دوسری صدی ہجری کے وسط میں علم عروض کے بانی خلیل بن احمد نے اعراب کی خاص شکلیں وضع کیں۔ انہوںنے ہمزہ، تشدید اور اشمام کی اصطلاحات بھی ایجاد کیں۔ اس طرح عبارت کا پڑھنا نہایت آسان ہوگیا۔
عباسی دَور کے ایک وزیر ابن مقلہ نے جو تیسری صدی ہجری کے آخر اور چوتھی صدی ہجری کے اوائل کے ایک باکمال خطاط تھے، رسم الخط میں بہت سی انقلابی تبدیلیاں ایجاد کیں۔ انہوں نے چھ نئے خط بھی ایجاد کئے جن میں سے سب سے مشہور ’’خط نسخ‘‘ ہے جو 310ھ میں ایجاد ہوا اور اپنی عمدگی کی وجہ سے قرآن لکھنے کے لئے مخصوص ہوگیا۔
ساتویں صدی ہجری میں امیر علی تبریزی نے ایک خوبصورت خط ایجاد کیا جو ’’خط نستعلیق‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ خط اردو زبان میں لکھنے کے لئے خاص طور پر بہت معروف ہوا۔