قناعت اور واقف زندگی
قناعت اور واقف زندگی
سہ ماہی رسالہ اسماعیل کے پہلے شمارہ (اپریل 2012 ء) میں مکرم مشرف احمد متعلم جامعہ احمدیہ یوکے کا مضمون بعنوان قناعت اور واقف زندگی شائع ہوا ہے-
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور جو اللہ سے ڈرے اُس کے لیے وہ نجات کی کوئی راہ بنا دیتا ہے۔ اور وہ اسے وہاں سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کرتا۔ اور جو اللہ پر توکل کرے تو وہ اس کے لئے کافی ہے۔ (سورۃ الطلاق: 3-4)
قناعت کے معروف معنی تھوڑی چیز پر خوش رہنا یا جو مل جائے اس پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے۔ حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی للہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے دلی اطمینان اور جسمانی صحت کے ساتھ صبح کی اور اُس کے پاس ایک دن کی خوراک ہے اُس نے گویا ساری دنیا جیت لی اور اُس کی ساری نعمتیں اُسے مل گئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ایسے قانع اور جفاکش تھے کہ بعض اوقات صرف درختوں کے پتوں پر ہی گزارہ کر لیتے۔ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ856۔ جدید ایڈیشن)
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ زندگی وقف کردینے سے رزق میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اُن کی یہ سوچ درست نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ رزاق ہے وہ اپنی خاطر زندگی وقف کرنے والے کو کبھی نہیں چھوڑتا، انہیں بھی رزق عطا فرماتا ہے اور ان کی آنے والی نسل در نسل کو بھی اپنے انعامات سے نواز تا چلا جاتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا اور خواہش کو پورا فرماتے ہوئے ایسے بزرگ مبلغین اپنے فضل سے عطا فرمائے ہیں جن کی قناعت قابل رشک تھی‘‘۔ ’’ہمارے ایک مبلغ تھے حضرت سید شاہ محمد صاحب۔ انہوں نے اپنا واقعہ یہ بیان کیا ہے کہ میں متواتر اٹھا رہ سال انڈونیشیا میں کام کرتا رہا اور اللہ کے فضل سے میں نے کبھی کسی کے آگے دستِ سوال دراز نہیں کیا۔ اپنا پورا وقار رکھا بہت معمولی الاؤنس (allowance) پر گزارہ ہو تا تھا۔ مشکل سے شاید دو وقت کی روٹی ملتی تھی۔ اپنی ہر حاجت کے لیے اپنے ربّ کا دروازہ کھٹکھٹاتا رہااور وہ میری حاجت روائی کرتا رہا۔ کہتے ہیں جب اٹھارہ سال بعد میری واپسی ہوئی تو میں بڑا خوش تھا۔ بحری جہاز کے ذریعے سے پاکستان روانہ ہوا اور کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک پرانی اچکن تھی اور دو ایک شلوار قمیص کے دھلے ہوئے جوڑے تھے۔ اور کچھ نہیں تھا۔کہتے ہیں میں بحری جہاز پر سفر کر رہا تھا۔ ہوائی جہاز کا تو اس وقت تصور ہی نہ تھا۔ راستے میں مجھے خیال آیا کہ میں اتنے عرصے بعد ملک واپس جارہا ہوں اور میرے پاس نئے کپڑے بھی نہیں ہیں۔ جنہیں پہن کہ میں ربوہ کے ریلوے اسٹیشن پر اتروں گا۔اس وقت مبلغین کراچی آیا کرتے تھے پھر وہاں سے ٹرین پر ربوہ پہنچتے تھے۔ تو کہتے ہیں میں اپنی خیالات میں تھا اور دعاؤں میں لگا ہوا تھا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ مجھے دل میں بھی اس قسم کی خواہش نہیں کرنی چاہئے تھی۔ یہ وقف کی روح کے خلاف ہے۔ کہتے ہیں میں نے اس پر بڑی توبہ استغفار کی۔ اور پھر چند دن بعد جہاز سنگاپور میں پورٹ پر رُکا کہتے ہیں میں جہاز کے عرشے پہ کھڑا، ڈیک پہ کھڑا نظارہ کر رہا تھا کہ میں نے ایک شخص کو ایک گٹھڑی اٹھائے ہوئے جہاز پر چڑھتے دیکھا وہ سیدھا جہاز کے کپتان کے پاس آیا اور اس سے کچھ پوچھنے لگا۔ کپتان نے اسے میرے پاس بھیج دیا۔ وہ مجھ سے گلے ملا۔ بغل گیر ہو گیا اور کہا کہ وہ احمدی ہے اور درزی کا کام کرتا ہے اُس نے بتایا کہ جب الفضل میں مَیں نے پڑھا کہ آپ آرہے ہیں اور رستے میں سنگاپور رکیں گے تو مجھے خواہش پیدا ہوئی کہ مَیں آپ کے لیے کوئی تحفہ پیش کروں اور آپ کی تصویریں مَیں نے دیکھی ہوئی تھیں۔ قدکاٹھ کا اندازہ تھا مَیں نے آپ کے لئے کپڑوں کے دو جوڑے سیے ہیں اور ایک اچکن اور ایک پگڑی تیار کی ہے۔ درزی ہوں اور یہی کچھ پیش کر سکتا ہوں آپ اسے قبول کریں۔ تو حضرت شاہ صاحب کہتے ہیں کہ یہ سُن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے کہ کس طرح میرے خدا نے میری خواہش کو پورا کر نے کے لئے ایک احمدی کے دل میں تحریک کی جسے مَیں نہیں جانتا تھا اور نہ وہ مجھے جانتا تھا۔ وہ مبلغین کو اور مربیان کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر مبلغ صرف آستانہ الٰہی پرجھکا رہے کسی کے آگے دست سوال دراز نہ کرے تو اللہ تعالیٰ غیب سے اس کے لئے سامان مہیا کر دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ واقفین زندگی سے، صرف مبلغین نہیں، ہر واقف زندگی سے یہ سلوک کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میدان عمل میں آج بھی یہ نظارے دِکھتے ہیں‘‘ ۔ (خطبہ 22اکتوبر2010 ء)
وقف ایک قربانی ہے اور وہ تنگ دروازہ ہے جس سے گزرنا مشکل ہے۔ مگر اس کے ساتھ اتنی برکات ہیں کہ وقف کی ہر تنگی خوشحالی میں ساتھ ساتھ بدل رہی ہوتی ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اﷲ تعالیٰ قناعت کا ذکر کرتے ہوئے نصیحتاً فرماتے ہیں کہ: ’’ایک کمزور انسان کہتا ہے مَیں خدا کے لئے اپنی زندگی کو کس طرح وقف کروں۔ میں نے خدا کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا تو میں بھوکا مرجاؤں گا۔ میری بیوی بچے کیا کھائیں گے ہم اپنا معیار زندگی کس طرح قائم رکھ سکیں گے اور اگر یہ لالچ اس کے دل میں آجائے تو وہ خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت سے محروم ہوجاتا ہے۔ مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب مَیں کائنات عالم کی اتنی بڑی مخلوق کو رزق پہنچارہا ہوں تو اگر تم میری آواز پر لبیک کہتے ہوئے آگے آؤ تو کیا میں تمہیں بھوکا مرنے دوں گا؟ فرمایا، اس بدظنی کو اپنے دل سے نکال دو بلکہ نڈر اور بہادر بن کر خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے آگے بڑھو‘‘۔
…ء…ء…ء…ء…ء…