لالہ آتما رام کا انجام
آتما رام گورداسپور میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تھا جس کی عدالت میں 1904ء میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے مخالف کرم دین آف بھیں کی طرف سے حیثیت عرفی کا ایک مقدمہ زیر سماعت رہا۔ پہلے یہ مقدمہ لالہ چندولال کی زیر سماعت تھا جس کا رویہ معاندانہ تھا۔ اُس کی جگہ آتمارام مقرر ہوا اور اس نے بھی تعصّب اور دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت اقدسؑ پر ناواجب سختی شروع کردی۔ تاریخیں قریب قریب مقرر کرنا شروع کردیں تاکہ آپؑ کو تکلیف ہو۔ مئی سے جولائی تک کئی بار آپؑ کو گورداسپور جانا پڑا اور آخر اُس نے فیصلہ سناتے ہوئے حضورؑ کو سات سو روپیہ ناحق جرمانہ کیا۔ اس کی سازش یہی تھی کہ عدم ادائیگی کا بہانہ بناکر آپؑ کو گرفتار کرلیا جائے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیّت تھی کہ اسی روز حضرت نواب محمد علی خانصاحبؓ نے ایک آدمی کے ہاتھ نو سو روپیہ بھجوادیا اور جونہی مقدمہ کا فیصلہ سنایا گیا اُسی وقت جرمانے کی رقم ادا کردی گئی۔ چنانچہ آتما رام اپنے بدمنصوبے میں ناکام رہا۔
اللہ تعالیٰ نے حضورؑ کو اس مقدمہ سے بریّت کی خوشخبری پہلے ہی سنادی تھی چنانچہ جب ڈویژنل جج کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوا تو اُس نے نہ صرف سابقہ فیصلہ منسوخ کرتے ہوئے حضرت اقدسؑ کو باعزت بری کردیا بلکہ کرم دین کو جرمانہ بھی کیا اور اس کے خلاف سخت فیصلہ لکھا۔ حضور علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’خدا نے میرے پر ظاہر کیا کہ وہ آتمارام کو اس کی اولاد کے ماتم میں مبتلا کرے گا … پھر ایسا ہوا کہ قریباً بیس پچیس دن کے عرصہ میں دو بیٹے اس کے مر گئے‘‘۔
حضور علیہ السلام نے آتما رام کی اولاد کی موت کی نسبت پیشگوئی کو اپنی کتاب ’’حقیقۃالوحی‘‘ میں اپنی صداقت کا اٹھائیسواں نشان قرار دیا ہے۔ آتما رام کے بارے میں ایک مختصر مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍ستمبر1998ء میں شائع ہوا ہے۔