لاہور کے بعض جاں نثاروں کا ذکرخیر
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12 نومبر 2010ء میں مکرم پروفیسر ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب کا مضمون شامل اشاعت ہے جس میں سانحہ لاہور کے بعض شہداء کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔
28 مئی 2010ء کو لاہور میں اپنے بہنوئی محترم محمد اسلم بھروانہ کی شہادت پر مجھے خیال آیا کہ یہاں کا ہر شہید میرا عزیز تھا کہ ہم سب ایک امام کی بیعت میں تھے اور بیعت کا رشتہ سب رشتوں سے زیادہ مستحکم اور معتصم ہوتا ہے۔
چوہدری اعجاز نصراللہ خاں صاحب ربوہ میں معاون ناظر امور عامہ تھے۔ خوبصورت وجیہ و شکیل آدمی تھے۔ جب اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان چلے گئے تو ان کے والد حضرت چوہدری اسداللہ خاں صاحب بارایٹ لاء کو بڑا صدمہ ہوا کیونکہ انہوں نے اپنی دانست میں اپنے اکلوتے بیٹے کو سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کر دیا تھا۔ چنانچہ وہ روتے بلکتے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور چھوٹتے ہی کہا حضور میرا ایک ہی بیٹا تھا وہ مر گیا۔ حضور چونک گئے اور بیتابی سے پوچھا ’’ہیں اعجاز کو کیا ہوا؟‘‘ چوہدری صاحب نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا: حضور! میں نے تو اسے وقف کیا تھا وہ وقف چھوڑ کر انگلستان جا مرا ہے۔ حضور مسکرائے اور فرمایا کون کہتا ہے اس نے وقف چھوڑ دیا ہے؟ وہ تو میری اجازت سے اعلیٰ تعلیم کے لئے گیا ہے۔ یہ سن کر چوہدری اسداللہ خاں صاحب کی جان میں جان آئی۔ چوہدری اعجاز نصراللہ خاں بیرسٹر بننے کے بعد واپس ربوہ نہیں آئے مگر جہاں بھی رہے سلسلہ کی خدمت میں مصروف رہے ریٹائر ہونے کے بعد لاہور میں نائب امیر کے فرائض سرانجام دیتے رہے اور اب شہادت کا رتبہ پالیا۔
شیخ منیر احمد صاحب کے ابا کا اسم گرامی شیخ تاج الدین صاحب تھا۔ لاہور کے رہنے والے تھے اور ڈاک خانہ میں پوسٹ ماسٹر تھے۔ بہت مہمان نواز آدمی تھے۔ منیر جوڈیشل سروس میں چنے گئے اور سیشن جج کسٹم جج اور آخر میں نیب میں جج رہے۔ ہائی کورٹ کے جج نہ بنائے گئے مگر ہائی کورٹ کے ججوں سے زیادہ شہرت، عزت اور نیک نامی پائی۔ پاکستان کی جوڈیشل سروس میں نیک نامی صرف احمدیوں کے لئے ہی رہ گئی ہے۔ یہ تو میں نے بہت لوگوں سے سنا ہے کہ فلاں جج بڑا دیانتدار ہے مگر ایک ہی برائی (یا اچھائی) ہے کہ احمدی ہے کسی کی سفارش نہیں مانتا۔
شیخ منیر احمد صاحب جب تک ملازمت میں رہے پوری دیانتداری کے ساتھ اپنے سرکاری فرائض سرانجام دیتے رہے۔ کسی کو ایک لحظہ کے لئے یہ شکایت نہ ہونے دی کہ سرکاری ملازم ہیں اور جماعت کا کام کرتے ہیں۔ جب جماعت کا کام کرنے کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے خلوص کو قبول فرماتے ہوئے انہیں لاہور جیسی جماعت کا امیر مقرر فرمایا اور آخر دم تک قیادت کا فریضہ کماحقہٗ انجام دیا۔
مجھے صرف ایک بار منیر سے ایک مشورہ لینے کو ان کے گھر پر جانا پڑا۔ کام بہت ضروری تھا۔ میں عجلت میں تھا منیر تواضع پر مصر تھے مگر بھانپ لیا کہ میں واقعی گھبرایا ہوا ہوں تو اصرار نہیں کیا۔ فون نمبر لے لیا اور جب تک منیر کو یقین نہیں ہوگیا کہ میری پریشانی دور ہوگئی ہے تین بار ان کا فون آیا۔ دوچار روز کے بعد دارالذکر میں ملاقات ہوگئی۔ گلے لگ کر کہنے لگے ایک بات کہوں؟ میں نے کہا ارشاد۔ کہنے لگے مجھے اس بات پر فخر ہے کہ آپ نے بڑا بھائی ہونے کے باوجود اتنے مشکل وقت میں بھی مجھے سفارش کے لئے نہیں کہا حالانکہ میں نے آپ کی بات سن کر بدظنی کی تھی کہ آپ مجھ سے سفارش کروانا چاہتے ہیں۔ مجھے معاف کردیں کیا آپ نے کبھی کسی اور کو بھی بدظنی کرنے پر معافی مانگتے دیکھا ہے؟ یہ احمدیوں کا ہی حوصلہ ہوتا ہے۔
آپ کے امیر جماعت بننے پر میں نے مبارکباد کا پیغام بھیجا تو آپ نے جواب بھجوایا کہ مبارکبادیں کم دو دعائیں زیادہ کرو کہ اللہ تعالیٰ ذمہ داری نبھانے کی توفیق دے۔
قادیان میں ہمارے سکول کے استاد سید سمیع اللہ شاہ صاحب نہایت صاحب ذوق اور مہربان استاد تھے۔ انگریزی پڑھاتے تھے، رومی ٹوپی پہنتے تھے ساتھ میں سوٹ۔ اُن کے ایک صاحبزادے سید ارشاد علی شاہ کالج میں ہمارے کلاس فیلو تھے۔ بی اے کے بعد وہ سول سروس میں چلے گئے اور فیصل آباد میں ایمپلائمنٹ ایکسچینج کے ڈائریکٹر رہے۔ آپ بھی لاہور کے جاں نثاروں میں شامل ہوئے۔
ادرحمہ ضلع سرگودھا کا ایک کم عمر یتیم بچہ مولانا محمد احمد جلیل صاحب کی ایک ہمشیرہ نے ربوہ بھیجا۔ وہ معصوم سا بھولا بھالا بچہ مولانا صاحب کے گھر کا فرد بن گیا۔ رہتا تو وہ اپنی اماں کے ساتھ تھا مگر اس کا زیادہ تر وقت مولانا کے بچوں کے ساتھ ان کے گھر میں گزرتا تھا۔ یہ خاموش اور ذہین بچہ بڑھتا اور پڑھتا رہا۔ اس کا اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا اوڑھنا پہننا سب مولانا کے بچوں جیسا تھا۔ اس کا نام لال خاں تھا۔ یہ بچہ ہمارا شاگرد بھی ہوا۔ بی اے کیا اور پھر واپڈا میں اکاؤنٹس کے محکمہ میں ملاز م ہو گیا۔ جماعت کاخدمت گزار بھی رہا۔ مظفر گڑھ میں تو امیر ضلع کے فرائض بھی ادا کئے۔ کالج کے پرنسپل اور بعد کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے مشفقانہ سلوک سے متأثر ہو کر اس نے ناصرؔ کو اپنے نام کو حصہ بنالیا۔ مسجد نور ماڈل ٹاؤن میں ڈیوٹی دیتا ہوا شہید ہوا۔
میرے بہنوئی اور بھائیوں جیسے مؤدب اور مہذب عزیز محمد اسلم بھروانہ جھنگ کے مشہور بھروانہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے ابا اور ماموں احمدی ہوئے۔ ابا جوانی ہی میں فوت ہوگئے۔ اسلم اکیلا ہی بیٹا تھا تین بہنیں تھیں۔ زمینداری کے نام کا سہارا تھا۔ ماموں مخلص احمدی تھے آپ نے کفالت اور نگرانی کا بیڑا اٹھایا۔ ایک بہن فوت ہو گئی تو ان کے بڑے بہنوئی مہر محمد شفیع اور بہن آپا سکینہ نے اس کی اولاد کی کفالت اپنے ذمہ لے لی۔ دوسری بہن بھی فوت ہوگئی تو عزیزی اسلم نے اس کے بچوں کو کفالت میں لے لیا۔ یہ سارا خاندان ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یتیم پرور خاندان ہے۔ ہمارے ابا عزیزی اسلم کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے اسے ربوہ لے آئے اور اسلم ہمارے گھر کا فرد بن کر رہنے لگا۔ میٹرک کا امتحان تعلیم الاسلام ہائی سکول سے اچھے نمبروں میں پاس کیا۔ جھنگ کالج سے F.Sc کرکے ٹیکسلا یونیورسٹی سے انجینئر بنا اور ریلوے میں ملازمت کرلی۔ ساری عمر نہایت دیانتداری اور دلیری سے ملازمت کی۔ جب ان کی شادی کا وقت آیا تو آپ نے اباجی کے حسن سلوک کو یاد رکھتے ہوئے اباجی کے خاندان سے صہری تعلق جوڑنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اور پھر اس رشتہ کو اس طرح نبھایا کہ ان کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے۔
پھر یہ نہیں کہ شادی کے بعد اپنی بہنوں کی یتیم اولاد کو بھول گئے ہیں۔ ایک بچی کو ایم اے تک تعلیم دلوائی۔ وہ یونیورسٹی میں اول آئی اور لاہور کے کسی کالج میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہے۔ یتیم بھانجا عزیزی سجاد بھروانہ ان کے ہاں پلا تو نہیں مگر انہی کا بیٹا بن کر رہا شہادت کے وقت بھی انہی کے ہاں تھا اور اپنے ماموں کے ہمراہ ہی جام شہادت نوش کیا۔ یہ عزیز بھی جماعت کے کاموں میں مستعد تھا۔
عزیزم محمد اسلم بھروانہ جماعت کاکام بڑی تُندہی اور خلوص سے کرتے تھے۔ قائد ضلع خدام الاحمدیہ بھی رہے۔ انصار میں بھی عہدیدار رہے۔ جماعت کا کام ہر کام پر مقدم رکھتے تھے۔ وقف بعد ریٹائرمنٹ کا عہد کیا ہوا تھا بلکہ وقف منظور بھی ہو چکا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے وقف میں لے لیا۔ پنڈی کوئٹہ لاہور جہاں بھی رہے جماعت کے کاموں میں مستعد رہے۔ طبیعت کے حلیم اور دل کے غنی تھے اور یہی خصوصیت ان کی ہر دلعزیزی کاموجب تھی۔ جماعت کے اجتماعات ان کے وسیع و عریض مکان میں ہوتے تھے۔ گھر ہر وقت مہمانوں سے بھرا رہتا تھا۔