لندن کی سیر
انگریزوں کا دعویٰ ہے کہ آثار قدیمہ کے شواہد بتاتے ہیں کہ لندن قدیم رومی دور میں بھی ایک سرگرم مرکز تھا۔ یہ چھوٹا سا گاؤں صدیوں پہلے دریائے ٹیمز کے کنارے اس طرح بسایا گیا کہ دریا ایک طرف سے اس کی حفاظت کرتا تھا۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍جولائی 2004ء میں لندن کے بارہ میں دلچسپ معلومات سے مزین ایک تفصیلی مضمون شائع ہوا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ جن دنوں مسلمانوں کی تہذیب ہسپانیہ میں عظمت کی بلندیوں کو چھو رہی تھی ان دنوں لندن ایک چھوٹے سے گاؤں کی حیثیت رکھتا تھا جہاں بنجر اور دلدلی زمین پر چند جھونپڑی نما کچے مکانات تھے اور کچی سڑکیں تھیں جن پر مشعل یا لالٹین کی کمزور روشنیاں ٹمٹماتیں۔ لوگ بھی زیادہ تر وحشی اور غاروں کے باسی تھے۔ چنانچہ جب یہاں کی فوج شیر دل رچرڈ کی قیادت میں صلیبی جنگوں میں حصہ لینے گئی تو اس کی اکثریت کھالوں میں ملبوس تھی اور مسلمان فوج کے لباس اور ہتھیار دیکھ کر یہ فوجی دنگ رہ گئے تھے۔
1258ء کے سقوط بغداد کے عظیم المیے کے بعد جب تہذیب کا سورج مغرب میں طلوع ہواتو یورپی اقوام نے اپنے شہر منظم کرنے شروع کئے۔ یورپ میں شہر بسانے کے لئے پہلے کوئی یادگار مثلاً فوارہ یا گھنٹہ گھر قسم کی چیز تعمیر کرکے اس کے گرد ایک بہت بڑا گول چوراہا بنایا جاتا ہے۔ جس سے کچھ فاصلے پر گرداگرد گولائی میں مکانات بننے شروع ہوجاتے ہیں۔ اس طرح شہر وجود میں آجاتا ہے۔ اس کے برعکس مشرق میں پہلے ایک سیدھا ، طویل بلکہ مستطیل بازار تعمیر کیا جاتا ہے جس کے اردگرد رہائشی مکانات تعمیر کئے جاتے ہیں۔ انگریزوں نے ہندو پاک میں جو شہر آباد کئے ان میں اپنا انداز اختیار کیا۔ چنانچہ فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں یہی اصول برتا گیا۔
اصل لندن ایک بہت بڑے فوارے کے گرد آباد ہے جس کانام پکاڈلی سرکس ہے۔ کسی زمانے میں یہاں پکاڈلی نام کا ایک بڑا سرکس ہوا کرتا تھاجس میں لوگوں کی تفریح کے لئے تماشے دکھائے جاتے تھے۔ اس سرکس میں شیکسپیئر بھی کام کرتا رہا ہے۔ اس فوارے کے چاروں طرف چھ بازار نکلتے ہیں جو آدھ آدھ میل لمبے ہیں۔ اصلی شہر لندن کی بس یہی حدود ہیں یعنی ایک میل لمبا اور ایک میل چوڑا ہے۔
جب دُور دُور کی دولت سمٹ کر لندن پہنچی تو اس کی کشش لوگوں کو کھینچنے لگی اور لوگ روزگار کی تلاش میں یہاں آنے لگے۔ چنانچہ چند ہزار کی آبادی کا شہر لاکھوں کی آبادی کا شہر بن گیا اور یہاں کئی مسائل نے جنم لیا جنہیں حل کرنے کے لئے لندن کے گرد مضافاتی بستیاں بنائی گئیں اور انہیں مکمل شہروں کے اختیارات دئیے گئے۔ چنانچہ لندن شہر سے کہیں بڑے بارہ شہر لندن کے گرد 1945ء میں آباد کئے گئے۔ ان شہروں کوHome Counties کہاجاتا ہے۔ برطانیہ میں ایسی کاؤنٹیوں کی تعداد بتیس ہے جن میں سے بارہ لندن میں ہیں۔ لندن شہر اور اس کی کاؤنٹیوں کا کل رقبہ610مربع میل ہے جسے عظیم تر لندن (Greater London) کہا جاتا ہے۔
اندازہ کے مطابق روزانہ گیارہ بارہ لاکھ افراد لندن میں داخل ہوتے، گھومتے پھرتے اور شام کو واپس جاتے ہیں۔ جن کے لئے یہاں ٹرانسپورٹ کا بہترین نظام قائم ہے۔ اس کے لئے یہاں چھ ریلوے اسٹیشن ہیں جو دائرے کی شکل میں لندن شہر کو گھیرے ہوئے ہیں۔ رش کے اوقات میں ان اسٹیشنوں پر ہر گیارہ سیکنڈ کے بعد ایک ریل گاڑی آکر رکتی ہے۔ چالیس سال قبل سے ایک تیز رفتار برقی ریل گاڑی بھی چلتی ہے جس کی رفتار 125میل فی گھنٹہ ہے۔ لندن کے صرف ایک ہوائی اڈے ہیتھرو سے قریباً ساڑھے چار کروڑ مسافر سالانہ سفر کرتے ہیں۔
دنیا میں سب سے پہلی زیرِ زمین ریل گاڑی 1863ء میں لندن میں چلائی گئی تھی۔ اس کا بڑا حصہ 1914ء میں ہونے والی جنگ عظیم سے پہلے ہی مکمل کر لیا گیا تھا لیکن اس کے اضافی حصے دوسری جنگ عظیم کے دوران بنائے گئے۔ اس کا سب اہم حصہ جسے جوبلی کا نام دیا گیا ہے ، 1979ء میں مکمل ہوا۔ ٹیوب کا احاطہ شمالاً 22میل اور شرقاً غرباً 35میل ہے۔ پٹڑیوں کی کل لمبائی چار سو کلومیٹر یعنی 254میل ہے۔ اس میں سے 105میل زیر زمین ہے۔ اس کے 1272؍اسٹیشن ہیں اور رش کے اوقات میں 478؍ریل گاڑیاں اِدھر اُدھر دوڑنے اور مسافروں کو منزل مقصود پر پہنچانے میں مصروف رہتی ہیں۔ لندن کا کوئی مقام ایسا نہیں جو اس کی دسترس سے باہر ہو۔