لوائے احمدیت
1939ء میں تین خوبصورت اور حیرت انگیز اتفاقات اکٹھے ہوگئے۔ پہلا یہ کہ عالمگیر جماعت احمدیہ کے قیام کو 50 سال پورے ہوئے۔ دوسرا حضرت مصلح موعودؓ کی عمر مبارک 50 سال ہوئی اور تیسرا یہ کہ خلافتِ ثانیہ کے 25 سال پورے ہوئے۔ ان خوشیوں کو شان و شوکت سے منانے کا اہتمام کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے قریباً 25 تجاویز پیش کیں جن میں سے ایک ’’لوائے احمدیت‘‘ تیار کرنے کی بھی تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس تجویز کو منظور فرماتے ہوئے خصوصی ہدایات سے نوازا۔ چنانچہ ان ہدایات کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب و صحابیات نے عطایا پیش کرکے 130؍روپے کی رقم جمع کی۔ حضرت میاں فقیر محمد صاحبؓ امیر جماعت احمدیہ ونجواں ضلع گورداسپور نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے ارشاد کی تعمیل میں کپاس کاکچھ بیج اپنے ہاتھ سے بویا، تیار ہونے پر چُنا، صحابیات سے دھنواکر اسے کتوایا اور پھر سوت لاکر حضرت اماں جانؓ کی خدمت میں پیش کیا۔
بعد ازاں حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ سیکرٹری خلافت کمیٹی نے پیغام بھیج کر حضرت میاں صاحبؓ سے آپ کی کاشت کردہ روئی میں سے باقی بچی ہوئی روئی حضرت بھائی عبدالرحمان صاحبؓ کے ذریعے منگوالی جسے حضرت سیدہ ام طاہرؓ صاحبہ جنرل سیکرٹری لجنہ اماء اللہ نے دارالمسیح میں صحابیات سے کتوایا اور پھر صحابہؓ نے قادیان اور تلونڈی میں اس سوت سے کپڑا بنا۔ ان صحابہؓ میں حضرت میاں خیرالدین صاحبؓ دری باف بھی شامل تھے۔
لوائے احمدیت کا طول 18؍فٹ اور عرض 9؍ فٹ ہے۔ اور اس سیاہ رنگ کے پرچم کے درمیان میں مینارۃ المسیح، ایک طرف بدر اور دوسری طرف ہلال کی شکل سفید رنگ میں بنی ہوئی ہے۔ اسے لہرانے کیلئے قادیان کے جلسہ گاہ میں اسٹیج کے شمال مشرقی کونہ کے ساتھ پانچ فٹ چبوترہ بناکر 62 فٹ اونچا آہنی پول نصب کیا گیا۔
28؍دسمبر 1939ء کو 2 بج کر 4 منٹ پر سیدنا مصلح موعودؓ نے ’’لوائے احمدیت‘‘ لہرایا۔اس سے قبل اسٹیج کا سائبان اتار دیا گیا تاکہ احباب واضح طور پر تقریب کا مشاہدہ کرسکیں۔ اس موقعہ پر حاضرین حضورؓ کے ساتھ ساتھ اس دعا کا ورد کرتے رہے
رَبَّنَا تَقَبَّل مِنَّا اِنَّکَ اَنتَ السَّمِیع العَلِیم
لوائے احمدیت لہرائے جانے کے بعد سب احباب نے کھڑے ہوکر یہ عہد کیا:
’’میں اقرار کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے اور احمدیت کے قیام، اس کی مضبوطی اور اس کی اشاعت کے لئے آخر دم تک کوشش کروں گا کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام دوسرے سب دینوں اور سلسلوں پر غالب رہے اور اس کا جھنڈا کبھی سرنگوں نہ ہو بلکہ دوسرے سب جھنڈوں سے اونچا اڑتا رہے‘‘۔ آمین۔
حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد کے مطابق جھنڈے کی حفاظت کیلئے مجلس خدام الاحمدیہ نے 12 خدام مقرر کئے اور اگلے روز نماز جمعہ کے بعد یہ جھنڈا دو ناظران کے سپرد کردیا گیا اور اسے ایسے تالہ میں رکھا گیا جس کی دو چابیاں تھیں اور دونوں ناظران مل کر تالہ کھول سکتے تھے۔
’’المحراب کراچی 1991ء‘‘ کی مدد سے تحریر کردہ مکرمہ صائمہ مریم ثمر صاحبہ کا یہ مضمون ماہنامہ ’’مصباح‘‘ ربوہ جون 1997ء میں شائع ہوا ہے۔
جھنڈا میں جو رنگ اور تصاویر رکھے گئے ہیں ان کو رکھنے کا کیا وجہ اور کیا مطلب ہے یہ بھی اس مضمون کے ساتھ شامل ہوجائے تو بہتر ہوتا۔ جزاکم اللہ
السلام علیکم ورحمۃاللہ۔ دراصل جس مضمون کی تلخیص پیش کی جا رہی ہو ہم صرف اسی کا خلاصہ دے سکتے ہیں۔ پس اگر اصل مضمون میں کوئی معلومات مہیا نہ کی گئی ہوں تو اُن کو الفضل ڈائجسٹ کے خلاصہ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کی تجویز کا شکریہ
ماشااللہ