ماہنامہ ’’المنار‘‘ انٹرنیٹ گزٹ
تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی خوبصورت روایات اور نصابی و غیرنصابی سرگرمیوں کی مسحورکُن یادیں اس زمانہ کے طلبا کے ذہنوں سے کبھی محو نہیں ہوسکتیں جنہوں نے اس کالج کے قومیائے جانے سے قبل وہاں کے شفیق اساتذہ سے کسب فیض کیا تھا۔ سرکاری ملکیت قرار دیئے جانے کے بعد اس شاندار علمی درسگاہ کا جو حشر کیا گیا اُس کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تعلیمی ادارے کے سابق طلبا (Old Students) نے اپنی مادرعلمی سے وفا اور محبت کا اظہار کرنے کے لئے مختلف ممالک میں اپنی ایسوسی ایشنیں قائم کیں جو چیریٹی کے نام پر بھی کثیر رقوم پاکستان بھجوارہی ہیں تاکہ غریب طلبا کی تعلیمی ضروریات پوری کی جاسکیں۔ نظام جماعت کے تحت قائم کی جانے والی ان ایسوسی ایشنوں کی کئی اہم خدمات اَور بھی ہیں جو تاریخ میں سنہری حروف میں لکھی جائیں گی اور صدقہ جاریہ کے طور پر سابق طلبا کی روحانی ترقیات کا باعث بنتی رہیں گی۔
قریباً 2007ء میں برطانیہ میں بھی تعلیم الاسلام کالج اولڈسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا تھا۔اس ایسوسی ایشن کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ حضورانور نے اس کا ممبر بن کر اسے برکت بخشی ہے۔ ایسوسی ایشن کے پہلے صدر محترم عطاء المجیب راشد صاحب مقرر ہوئے۔
جنوری 2011ء میں اس ایسوسی ایشن نے ایک آن لائن رسالہ ’’المنار‘‘ جاری کیا جو باقاعدگی سے ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ نیز ’’الاسلام ڈاٹ آرگ‘‘ پر بھی upload کیا جاتا ہے۔ دراصل یہ اُسی رسالہ ’’المنار‘‘ کا احیاء ہے جو کسی زمانہ میں تعلیم الاسلام کالج کے طلباء کا ترجمان ہوا کرتا تھا۔ اس کی اہمیت و افادیت اُس دَور میں بھی مسلّم تھی اور آج بھی اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
اس رسالہ کا اجراء یقینا ایسوسی ایشن کی قابل قدر مساعی کا آئینہ دار ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے اس رسالہ کے اجراء پر اپنے پیغام میں فرمایا تھا: ’’تعلیم الاسلام کالج اولڈ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن برطانیہ کی طرف سے تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے رسالہ ’المنار‘ کے نام پر انٹرنیٹ گزٹ جاری کرنے کی خبر میرے لئے بڑی خوشی کا موجب بنی ہے۔ اللہ تعالیٰ المنار کا ازسرنو اجراء ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور اس کے نیک نتائج ظاہر فرمائے‘‘۔
المنار کے انٹرنیٹ گزٹ میں مستقل طور پر ایسے دلچسپ علمی اور تاریخی مضامین شائع کئے جاتے ہیں جن کا مطالعہ نہ صرف سابق طلباء بلکہ دیگر باذوق احباب بھی شوق سے کرتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ رسالہ کے مدیر مکرم مقصودالحق صاحب ہیں۔
تعلیم الاسلام کالج اولڈ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن برطانیہ کے رسالہ ’’المنار‘‘ کے اوّلین شمارہ (جنوری 2011ء) میں مکرم عطاء المجیب راشد صاحب کا یہ قطعہ بھی شامل اشاعت ہے:
دوستو! تم کو مبارک ہو کہ نکلا ’المنارؔ‘
اِک مقدّس درسگاہ کی خوبصورت یادگار
غرب سے اُبھرا ہے لے کر دعوتِ علم و عمل
پھولتا پھلتا رہے دائم بفضلِ کردگار
اسی شمارہ میں محترم پروفیسر نصیراحمد خان صاحب کی ایک نظم شائع ہوئی ہے جو انہوں نے 6دسمبر 1954ء کو ربوہ میں کالج کے افتتاح کے موقع پر پڑھ کر سنائی اور ’’المنار‘‘ نومبر 1954ء میں شائع ہوئی۔ اسی شمارہ میں محترم ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب کے ایک مضمون کا کچھ حصہ بھی نقل کیا گیا ہے
جس میں تعلیم الاسلام کالج کے پاکستان میں قیام اور ربوہ منتقلی کا بیان ہے۔
ماہنامہ ’’المنار‘‘ فروری 2011ء میں مکرم بشیر احمد رفیق صاحب اپنے مضمون میں کالج کے زمانۂ طالبعلمی کے چند قابل اساتذہ کا ذکرخیر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ کالج کی ایک نہایت مقبول شخصیت مددگار کارکن شادیؔ کی تھی۔ انہوں نے حسِ مزاح سے وافر حصہ پایا تھا اور پرنسپل حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کو اُن سے بے حد پیار تھا۔ ایک مرتبہ ایک طالب علم نے شادیؔ کی منّت سماجت کی کہ اُس کی درخواست پرنسپل صاحب کو پیش کرکے سفارش بھی کردے۔ شادیؔ اُس کی درخواست لے کر پرنسپل صاحب کے پاس گیا۔ انہوں نے فرمایا کہ مَیں اس وقت بہت مصروف ہوں۔ اس پر شادیؔ درخواست پکڑکر اُن کے سامنے کھڑا رہا۔ پرنسپل صاحب کو غصّہ آیا تو شادیؔ کو باہر نکال کر اندر سے دروازہ بند کرلیا۔ شادیؔ نے درخواست دروازہ کے نیچے کی درز سے کمرے کے اندر سرکاتے ہوئے آواز دی کہ درخواست اٹھالیں اور بچے کا کام کردیں۔ پرنسپل صاحب کو ہنسی آگئی۔ دروازہ کھولا اور درخواست منظور کرکے شادیؔ کو پکڑادی۔
اسی طرح ایک دفعہ کالج کے گراؤنڈ میں میرے ہمراہ محترم ڈاکٹر سلطان محمودشاہد صاحب بیٹھے تھے کہ شادیؔ ہاتھ میں بڑا سا پیالہ پکڑے وہاں سے گزرا۔ شاہ صاحب نے پوچھا کہ اس میں کیا ہے۔ کہنے لگا بچاکھچا سالن روٹی ہے، آپ کھالیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو کھانا کھاچکے ہیں۔ شادیؔ اصرار کرنے لگا تو شاہ صاحب نے تنگ آکر ڈانٹا کہ کہہ جو دیا کہ کھاچکے ہیں۔ تب وہ نہایت معصومیت سے بولا: کھالو، کھالو، مَیں ویسے بھی اسے پھینکنے ہی جارہا ہوں۔
رسالہ ’’المنار‘‘ میں شائع کئے جانے والے دلچسپ اور معلوماتی مضامین آئندہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بنائے جاتے رہیں گے۔ انشاء اللہ