مجلس انصاراللہ برطانیہ کا 34 واں سالانہ اجتماع 2016ء

مجلس انصاراللہ برطانیہ کے 34ویں سالانہ اجتماع 2016ء کا انعقاد


خطبہ جمعہ کے ذریعہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی پیغام، علمائے سلسلہ کی تربیتی تقاریر اور معلوماتی پریزنٹیشنز، علمی اور ورزشی مقابلہ جات کا انعقاد، معلوماتی نمائش

اور مختلف شعبہ جات کے رابطہ سٹالز

(رپورٹ: فرخ سلطان محمود۔ ناظم رپورٹنگ)

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 25 نومبر 2016ء)

خداتعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ مجلس انصاراللہ برطانیہ کو رُبع صدی سے زائد عرصہ سے یہ سعادت حاصل ہوتی چلی آرہی ہے کہ خلفائے احمدیت کی براہ راست ہدایت، رہنمائی اور دعاؤں سے فیضیاب ہوتے ہوئے ترقی کی منازل طے کرتی چلی جارہی ہے۔ ان ترقیات کی پیمائش کا ایک ذریعہ سالانہ اجتماعات بھی ہیں۔ امسال مجلس انصاراللہ برطانیہ کے 34ویں سالانہ اجتماع کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ یہ ایک نئے مقام ’اولڈ پارک فارم کنگزلے‘ (Old Park Farm, Kingsley) میں نہایت کامیابی کے ساتھ بتاریخ 30 ستمبر، یکم و 2؍اکتوبر 2016ء منعقد ہوا۔ نیز اس اجتماع میں شامل ہونے والوں کی سعادت یہ بھی تھی کہ سیّدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍ستمبر میں اجتماع کے حوالہ سے انصار کو نہایت قیمتی نصائح ارشاد فرمائیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی پیغام

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ: ’’آج سے مجلس انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ یوکے (UK) کا اجتماع شروع ہورہا ہے۔ ہمارے اجتماعات کی اصل روح تو یہ ہے جس کے لئے کوشش ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق اور آپس میں محبت و اخوت میں بڑھا جائے۔ علمی پروگرام اور مقابلے اس روح کے ساتھ ہونے چاہئیں کہ ہم نے ان باتوں سے کچھ سیکھ کر اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے۔
بعض کھیلوں کے بھی پروگرام ہوتے ہیں تو اس لئے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے صحتمند جسم بھی ضروری ہے ورنہ نہ ہی انصار اللہ کی کھیل کود کی عمر ہے اور نہ ہی بائیس تیئس سال کی عمر کے بعد عموماً عورتیں کھیلوں میں کوئی زیادہ شوق رکھتی ہیں۔ پس ورزشی مقابلوں کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اپنی جسمانی صحت کی طرف توجہ رہے اور صرف مقابلوں میں حصہ لینے والے نہیں بلکہ دوسرے بھی کم از کم سیر یا پھر ہلکی پھلکی ورزش سے اپنے جسموں کو چست رکھیں۔ تو بہرحال اصل چیز تو ان اجتماعوں کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اپنی دینی اور علمی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی طرف توجہ ہو۔
صدر صاحب انصار اللہ نے مجھے کہا کہ خطبہ میں انصار کو مخاطب کر کے کچھ کہہ دیں۔ انصار اللہ کی عمر تو ایک ایسی عمر ہے جس میں انسان کی سوچ mature ہوتی ہے، پختہ ہوتی ہے اور خود انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے اور ان ذمہ داریوں کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ ایک تو پختہ عمر ہونا اور دوسرے ان بڑی عمر کے لوگوں کی مجلس کا نام انصار اللہ ہونا ہر ممبر کو، ہر احمدی مرد کو جو چالیس سال سے اوپر ہے اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کا احساس دلانے کے لئے کافی ہے۔ یہ ذمہ داری یا ذمہ داریاں کیا ہیں جن کو ایک ناصر کو ادا کرنا چاہئے؟ ان کا خلاصہ انصار اللہ کے عہد میں بیان ہو گیا ہے۔
پہلی بات یہ کہ ہر ناصر، ہر شخص جو مجلس انصار اللہ کا ممبر ہے اسلام کی مضبوطی اور احمدیت پر سچے دل سے قائم ہونے کی کوشش کرے۔ اور اسلام کی مضبوطی کے لئے کوشش اپنے علم اور طاقت سے نہیں ہو سکتی۔ اسلام اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا دین ہے اور تعلیم کے لحاظ سے کامل اور مکمل دین ہے۔ اس میں کسی انسان نے تو کوئی اور مضبوطی پیدا نہیں کرنی ہے۔ ہاں اپنے آپ کو اس سے مضبوط تعلق پیدا کرنے کے لئے کوشش کی ضرورت ہے تا کہ اس کامل اور مکمل دین کا ہم مضبوط حصہ بن سکیں۔ اور یہ بات خدا تعالیٰ سے تعلق کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی۔ اس کے لئے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور انصاراللہ کے معیار سب سے اعلیٰ ہونے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق نہ ہو جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے خود ہمیں حکم دیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور سلام بھیجو، اس کی طرف توجہ دو۔ پس یہ بہت ضروری چیز ہے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کا حق ادا کرنا ہے۔ جب یہ حق قائم ہو گا تو تبھی احمدیت پر ہم سچے دل سے قائم ہوں گے۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے تکمیلِ اشاعتِ اسلام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے اور احمدیت پر سچے دل سے قائم ہونا تبھی ثابت ہو گا جب ہم اشاعت اسلام اور تبلیغ اسلام میں بھرپور حصہ لیتے ہوئے اپنے آپ کو انصار اللہ ثابت کریں گے۔ پس ایک تو یہ ذمہ داری ہے۔
پھر آپ نے، انصار نے اپنے عہد میں ایک عہد یہ بھی کیا یا دوسرے لفظوں میں اس ذمہ داری کو نبھانے کا، اٹھانے کا وعدہ اور اعلان کیا کہ خلافت احمدیہ سے وفا کا تعلق اور اس کی حفاظت کے لئے کوشش کریں گے۔ یہ کوشش کس طرح ہو گی؟ یہ کوشش تبھی ہو گی جب انصار خلافت کے کاموں اور پروگراموں کو آگے بڑھانے کے لئے اس کے مددگار بنیں گے اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب انصار اپنے آپ کو خلیفہ وقت کی باتوں کے سننے کی طرف متوجہ رکھیں گے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس زمانے میں ایم ٹی اے کی نعمت بھی عطا فرمائی ہے کہیں دُور بیٹھے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ پس انصار اللہ کو اپنے آپ کو اس کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اپنی اولادوں کو بھی۔ یہ بھی عہد کیا کہ اولادوں کو بھی خلافت سے جوڑیں گے تو اولادوں کو بھی اس ذریعہ سے خلافت کے ساتھ جوڑ دیں علاوہ اور باقی تربیتی باتوں کے تا کہ نسلاً بعد نسلٍ یہ وفاؤں کے سلسلے چلتے رہیں اور قائم رہیں تا کہ خدمت اسلام اور اشاعت اسلام کا کام ہمیشہ جاری رہے۔ کیونکہ اشاعت اسلام کا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد آپ کے ہی اعلان کے مطابق قدرت ثانیہ کے ذریعہ سے ہونا ہے جو نظام خلافت ہے۔ پس اس کے لئے ہر قربانی کے عہد پر نظر رکھیں۔ یہ عہد آپ نے کیا کہ ہر قربانی آپ کریں گے تو اس پر نظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ ‘‘
(ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل21؍اکتوبر 2016ء)
امر واقعہ یہی ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے مذکورہ بالا خطبہ جمعہ کے ساتھ ہی امسال منعقد ہونے والے مجلس انصاراللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع کا روایتی افتتاح بھی عمل میں آگیا۔ حضور انور کا بلاشبہ یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اپنی انتہائی مصروفیات کے باوجود بھی اپنے غلاموں کے لئے اپنی شفقت کا انتہائی محبت سے اظہار فرمایا۔ جَزَاھُمُ اللہ اَحْسَنَ الْجَزَاء۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور انور کی نصائح پر عمل کرنے اور حقیقی معانی میں انصاراللہ بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

سالانہ اجتماع کے مختصر کوائف

اولڈ پارک فارم کنگزلے میں جماعت احمدیہ کا پہلا فنکشن ایک ہفتہ قبل یہاں منعقد ہونے والا مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کا سالانہ اجتماع تھا۔ ایک ہفتہ بعد یہاں مجلس انصاراللہ اور لجنہ اماء اللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماعات منعقد ہوئے۔ انصاراللہ اور لجنہ اماء اللہ کے اجتماع کے لئے الگ الگ حصّے مخصوص تھے۔ حدیقۃالمہدی سے محض چار کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع اس مقام اجتماع کا ایک بڑا حصہ پارکنگ کے لئے مخصوص کیا گیا تھا۔ اگرچہ امسال ایک نئی جگہ، نامساعد حالات، موسمِ سرما کے آغاز اور اجتماع کے دوسرے روز بارش ہوجانے کے باعث مقامِ اجتماع اور خصوصاً پارکنگ ایریا میں کیچڑ ہوجانے کی وجہ سے شاملینِ اجتماع کو خاصی تکلیف اٹھانی پڑی۔ تاہم اس زحمت کے باوجود اجتماع کے تیسرے روز بھرپور حاضری ریکارڈ کی گئی۔ الحمدللہ
امسال سٹیج کی بیک گراؤنڈ سادہ مگر دیدہ زیب تھی۔ سبز رنگ کے کینوس پر سورۃالنحل کی آیت 91 تحریر تھی جس کے ساتھ اس کا انگریزی ترجمہ بھی دیا گیا تھا۔ اس آیت کا اردو ترجمہ یوں ہے: ’’یقینا اللہ عدل کا اور احسان کا اور اقرباء پر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حُکم دیتا ہے اور بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کرو۔‘‘
مارکی میں مختلف بینرز آویزاں تھے جن پر خصوصیت سے مجلس انصاراللہ کے قیام کے مقاصد اور انصار کے لئے خلفائے سلسلہ کی ہدایات رقم تھیں۔
مارکی کے پچھلے حصہ میں ایک معلوماتی نمائش کا اہتمام تھا۔ اس خوبصورت نمائش کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ایک حصہ میں مختلف موضوعات پر آیاتِ قرآنی اور اُن کا ترجمہ آویزاں تھا نیز مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم بھی میز پر ترتیب سے رکھے گئے تھے۔ نمائش کے دوسرے حصہ میں ایک میز پر تبلیغی سٹال کا نقشہ پیش کیا گیا تھا اور ساتھ میں کیلی گرافی سے مزیّن ایک پوسٹ بنائی گئی تھی جس کے پس منظر میں روشنی کرکے اسے نمایاں کیا گیا تھا۔ جبکہ نمائش کے تیسرے حصہ میں مجلس انصاراللہ یوکے کے نیشنل اور علاقائی سطحوں پر ہونے والے اہم پروگراموں کی تصاویر اور معلومات پر مبنی پوسٹرز نمائش کے لئے پیش کئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ نیشنل شعبہ وصیت یوکے، چیریٹی ادارہ ہیومینٹی فرسٹ اور ڈیجیٹل ریڈیو Voice of Islam نے اپنے سٹالز بھی لگائے ہوئے تھے۔
ہفتہ اور اتوار کو نماز تہجد باجماعت ادا کی گئی اور نماز فجر کے بعد درس دیا گیا۔ امسال منعقد ہونے والے علمی مقابلہ جات میں تلاوت، حفظ قرآن، نظم، تقریر (اردو و انگریزی)، فی البدیہہ تقریر (اردوو انگریزی)، ٹیم کوئز اور پیغام رسانی جبکہ ورزشی مقابلہ جات میں والی بال، فٹ بال، رسّہ کشی، گولہ پھینکنا، وزن اٹھانا، کلائی پکڑنا، صف اوّل کی 50 میٹر اور صف دوم کی 100 میٹر کی دوڑیں، ٹینس اور کرکٹ کے گیند پھینکنے کے مقابلے شامل تھے۔
امسال کی ایک اہم پیش رفت اردو میں کی جانے والی تمام تقاریر کے Live (براہ راست) انگریزی ترجمہ کا انتظام بھی تھا۔ اس مقصد کے لئے مکرم ڈاکٹر حامداللہ خان صاحب مقرر تھے۔ اُن کی مدد مکرم ثاقب جہانگیری صاحب اور مکرم ڈاکٹر چودھری مظفر احمد صاحب نے کی۔

سالانہ اجتماع کا پہلا روز
30 ستمبر 2016ء کو مقام اجتماع میں موجود احباب نے ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے ذریعہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطبہ جمعہ سنا اور مقامی طور پر نماز جمعہ اور عصر باجماعت ادا کی گئیں۔ شام ساڑھے چار بجے لوائے انصاراللہ لہرانے کی تقریب منعقد ہوئی۔ مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب نائب امیر یوکے و امام مسجد فضل لندن نے لوائے انصاراللہ جبکہ مکرم ڈاکٹر چوہدری اعجازالرحمن صاحب صدر مجلس انصاراللہ یوکے نے برطانیہ کا قومی پرچم لہرایا۔ مکرم امام صاحب نے دعا کروائی۔
افتتاحی اجلاس کی صدارت مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب نے کی۔ تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد آپ نے اپنی افتتاحی تقریر میں انصار کو بعض تربیتی امور سے متعلق توجہ دلائی۔ اور بعد ازاں دعا کروائی۔
اجتماع کا پہلا باقاعدہ اجلاس ساڑھے پانچ بجے مکرم چودھری وسیم احمد صاحب سابق صدر مجلس انصاراللہ برطانیہ کی زیرصدارت شروع ہوا۔ اس اجلاس کی پہلی تقریر مکرم وسیم احمد فضل صاحب استاذالجامعہ الاحمدیہ برطانیہ کی تھی جس کا عنوان تھا: ’’ذکرحبیبؑ‘‘۔ یہ تقریر اردو زبان میں تھی۔
آپ نے بتایا کہ حضور علیہ السلام کو اپنے صحابہ کے جذبات کا ہمیشہ خیال رہتا تھا۔
حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓکا بیان ہے کہ ایک بار بہت رات گئے وہ یہ خبر حضور علیہ السلام کی خدمت میں عرض کرنے کے لئے حاضر ہوئے کہ ایک دوست یوسف علی صاحب قریب المرگ ہیں۔ یہ اطلاع دینے کے لئے انہوں نے حضور علیہ السلام کے مکان کے اُس حصہ کے بیرونی دروازہ کے قریب پہنچ کر آواز دی جہاں حضور علیہ السلام رات کو آرام فرمایا کرتے تھے۔ وہ بیان فرماتے ہیں کہ میرے آواز دینے پر حضور علیہ السلام نے پوچھا کہ صاحبزادہ صاحب ہیں؟ عرض کیا: جی۔ حضور علیہ السلام نے خادمہ سے فرمایا: ’’جلدی دروازہ کھول دو، ثواب ہوگا‘‘۔ یہاں غور کرنے کا مقام ہے کہ خادمہ کا کام ہی خدمت ہے۔ لیکن حضور علیہ السلام اُس سے بھی اگر کسی خدمت کا تقاضا کرتے ہیں تو اُس خدمت کے نتیجہ میں بھی خداتعالیٰ کے قرب کو ہی پیش نظر رکھتے ہیں۔
حضرت اقدس علیہ السلام کی قوّت قدسیہ ایسے عظیم مقام پر دکھائی دیتی ہے کہ بسااوقات اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں کے حالات اور خیالات سے آپؑ کو خبر دیا کرتا تھا اور آپؑ معترضین کے اعتراضات کا جواب اُن کے پوچھے بِنا ہی دے دیا کرتے تھے یا اپنے خدام کی تالیف قلب کے لئے اُن سے احسان کا سلوک فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت میاں عبدالعزیز صاحبؓ جو ایک مسکین الطبع شخص تھے۔ وہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مجلس میں حضور علیہ السلام کے پینے کیلئے دودھ کا گلاس آیا تو میرے دل میں حضورؑ کا پس خوردہ دودھ پینے کی خواہش پیدا ہوئی۔ لیکن وہاں موجود باقی افراد کا خیال کرکے چُپ ہورہا۔ اسی اثناء میں حضور علیہ السلام نے ازخود فرمایا: میاں عبدالعزیز! آؤ یہ دودھ پی لو۔
اس سیشن کی دوسری تقریر مکرم فہیم احمد انور صاحب نائب صدر صف دوم نے انگریزی زبان میں کی۔ تقریر کا عنوان تھا : ’’بحیثیت والد ہماری ذمہ داری‘‘۔ موصوف نے بتایا کہ اس وقت جنریشن گیپ (Generation Gap) کے نتیجہ میں کئی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جہاں بچوںکو اپنے والد سے عزت و احترام سے پیش آنا چاہئے وہاں والد کو بھی بچوں سے محبت، شفقت اور دوستانہ برتاؤ کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اسی طرح ایک والد جو مجلس انصاراللہ کا بھی رُکن ہو، اُسے اپنے عہد کے یہ الفاظ ہمیشہ سامنے رکھنے چاہئیں کہ: ’’مَیں اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتا رہوں گا‘‘۔
اس سیشن کی تیسری اور آخری تقریر مکرم ندیم الرحمن صاحب کی تھی۔ انگریزی زبان میں کی جانے والی اس تقریر کا موضوع ’’انٹرنیٹ کے مسائل اور والدین کے فرائض‘‘ تھا۔ آپ نے بتایا کہ انٹرنیٹ کا بڑا مقصد مختلف طبقات کے درمیان علم میں فرق کے اختلاف کو کم کرنا اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ معلومات مہیا کرنا ہے۔ چنانچہ انٹرنیٹ کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ اس سے آپ مختلف علوم کو بنیادی سطح سے لے کر اعلیٰ سطح تک حاصل کرسکتے ہیں۔ نیز انٹرنیٹ کے ذریعہ لوگوں کے درمیان باہمی روابط مضبوط کئے جاسکتے ہیں ۔ اسی طرح انٹرنیٹ کے ذریعہ علم کے ذرائع کو وسیع کیا جاسکتا ہے ۔ اس کی ایک بڑی مثال مجلس انصاراللہ برطانیہ کا انٹرنیٹ کے ذریعہ قرآن کریم سکھانے کا پروگرام ہے۔ مزید یہ کہ تبلیغ کے اہم ذرائع بھی انٹرنیٹ کے مرہون منّت ہیں۔ تاہم انٹرنیٹ کے فوائد کے ساتھ ساتھ اس کے نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں جن سے بچنے کے لئے دعا اور کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔
دعا کے ساتھ یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا۔
سالانہ اجتماع کا دوسرا روز
آج صبح کے اجلاس میں علمی مقابلہ جات کا انعقاد ہوا جبکہ اُسی وقت میدانِ عمل میں چند ورزشی مقابلہ جات منعقد ہوئے۔ نماز ظہر و عصر کی باجماعت ادائیگی کے بعد اجتماع کا تیسرا سیشن مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن کی زیرصدارت منعقد ہوا۔ تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد ایک Presentation ہوئی جو مکرم شکیل احمد بٹ صاحب قائد تبلیغ مجلس انصاراللہ یوکے نے پیش کی۔ مقرر موصوف نے گزشتہ پانچ سال میں مجلس انصاراللہ برطانیہ کی تبلیغی کاوشوںپر روشنی ڈالی اور بتایا کہ گزشتہ پانچ سال میں برطانیہ کے 3792؍دیہات وزٹ کئے گئے اور واقعۃً گھر بہ گھر پہنچ کر نیز نمائشوں کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ افراد کو اسلام احمدیت کی تعلیمات سے آگاہ کیا گیا۔ اسی طرح شہروںمیں گزشتہ پانچ سال میں 12130 تبلیغی سٹالز لگائے گئے جبکہ اس عرصہ کے دوران تقسیم کئے جانے والے لیفلیٹس کی تعداد 2.7 ملین سے زائد ہے۔نیز کتب “Life of Muhammadsa” اور حضور انور ایدہ اللہ کی کتاب “Pathway to Peace” کی تقسیم کے لئے خصوصی مساعی کی گئی۔ اسی طرح گزشتہ پانچ سال کے دوران مختلف نمائشوں، مجالس سوال و جواب اور اسی نوعیت کے پروگراموں کی کُل تعداد 1170 رہی۔ ان پروگراموں کی بازگشت مختلف سطحوں پر بلکہ پارلیمنٹ میں بھی سنی گئی۔ اس تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں صرف گزشتہ سال 124؍سعید روحیں اسلام احمدیت کی آغوش میں آئیں۔
اس سیشن کی اگلی تقریر مکرم ٹوبان ایفرام موانجے (Toban Ephram Mwanje) صاحب کی تھی۔ آپ کا تعلق یوگنڈا سے ہے اور اس وقت برمنگھم میں مقیم ہیں۔ آپ نے قریباً بیس سال قبل احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل کی تھی۔ آپ کی تقریر کا موضوع تھا: “Persecution of Ahmadis in the UK & Role of Young Ansar”۔ یعنی برطانیہ میں احمدیوں کے خلاف مذہب کی بنیاد پر جاری تشدّد کی مہم کے جواب میں نوجوان انصار کا کردار کیا ہونا چاہئے۔
مقرر موصوف نے برطانیہ میں احمدیت کی مخالفت کے مختلف پہلو بیان کئے اور بتایا کہ اس کے نتیجہ میں ہم انصار پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ سے بہت بڑھ کر تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہے اور اس مقصد کے لئے نماز اور عبادات کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ نیز اپنی روایات اور اقدار کی حفاظت کرنا اور اطاعت کے جذبہ کے ساتھ اسلام احمدیت کی حقیقی تعلیمات سے دوسروں کو روشناس کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگیوں کو بھی ایسے مقام پر لانا چاہئے جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ ایک عملی مسلمان کا کردار کیا ہوتا ہے۔ نیز مقامی حکام سے رابطہ کرکے شرپسند عناصر سے نبٹنا چاہئے۔
اس تقریر کے بعد شعبہ تبلیغ اور شعبہ مال کے حوالہ سے اعلیٰ کارکردگی کی حامل مجالس کے زعماء میں مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب نے اعزازات تقسیم کئے ۔
اس سیشن کی آخری تقریر مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب نائب امیر یوکے و امام مسجد فضل لندن کی تھی۔ آپ کی تقریر کا موضوع سورۃ حٰمٓ السجدہ کی آیت 34 تھی جس کا ترجمہ ہے: بات کہنے میں اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک اعمال بجا لائے اور کہے کہ میں یقینا کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں۔
محترم امام صاحب نے دعوت الی اللہ کے میدان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت مسیح موعودؑ اور صحابہ کرام کے پاکیزہ نمونہ سے متعدد واقعات بیان کئے۔ اوربتایا کہ ان وجودوں نے دین کی تبلیغ کے لئے ہر صعوبت صبر سے برداشت کی اور اس کے نتیجہ میں دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے انعامات اُن پر نازل ہوئے۔
آپ نے حضور انور ایدہ اللہ کے اِس ارشاد پر اپنی پُراثر تقریر کا اختتام کیا۔ حضور انور فرماتے ہیں کہ ’’ہر احمدی کو احمدیت کا سفیر، مبلغ اور نقیب بننا چاہئے‘‘۔
دعا کے ساتھ یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا۔
سالانہ اجتماع کا چوتھا سیشن مکرم عبدالماجد طاہر صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن کی زیرصدارت شروع ہوا۔ تلاوت اور نظم کے بعد پہلی Presentation مکرم نثار آرچرڈ صاحب سیکرٹری تربیت جماعت احمدیہ برطانیہ کی تھی جس کا موضوع تھا: ’’خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرنے کا طریق‘‘۔ آپ نے بتایا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کا مقام نہایت اعلیٰ و برتر ہستی کا مقام ہے۔ اور کسی انسان کے ساتھ باہمی تعلق کا اظہار خود خداتعالیٰ یوں کرتا ہے کہ اگر کوئی ایک قدم اُس کی طرف اٹھائے تو وہ دس قدم اُس بندے کی طرف آئے گا۔ اور اگر کوئی چل کر اُس کی طرف جائے تو وہ دوڑ کر اپنے بندہ کی طرف آئے گا۔ یہ بات بھی ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت پیدا کرنی چاہئے۔ جس کاطریق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہی سکھایا ہے کہ ہم محبت کے ساتھ درود شریف پڑھیں۔
خداتعالیٰ سے تعلق اُستوار کرنے کیلئے ایک اہم چیز نماز کا قیام ہے۔ غور کریں کہ اگر کوئی ہمارا عزیز ہمیں فون کرے تو کیا ہم اُس کے فون کا جواب نہیں دیں گے!؟۔ تو کیا وہ عزیز ترین ہستی جو ہمیں اذان کی صورت میں Call کرتی ہے تو ہمیں اُس Call کا جواب نماز کے ذریعہ دینا کس قدر ضروری ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ خداتعالیٰ سے اظہارِ محبت کا بہت بڑا ذریعہ نماز ہے اور یہ خداتعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔
اس کے بعد مکرم ظہیر احمد جتوئی صاحب چیئرمین میراتھن واک نے 29؍مئی 2016ء کو ایسٹ لندن میں منعقد ہونے والی سالانہ میراتھن واک کی مختصر رپورٹ پیش کی۔ آپ نے بتایا کہ امسال ہمارا ٹارگٹ نصف ملین پاؤنڈز اکٹھا کرنا ہے جس میں سے 3لاکھ 70 ہزار سے زائد رقم اکٹھی ہوچکی ہے اور قوی امید ہے کہ 30 نومبر تک (Poppy Appeal میں حصہ لینے کے بعد) نصف ملین پاؤنڈ کا ٹارگٹ حاصل کرلیا جائے گا۔ امسال اڑہائی ہزار افراد نے میراتھن واک میں حصہ لیا تھا جن میں پانچ سو سے زائد غیرازجماعت افراد تھے۔ اب تک مجلس انصاراللہ برطانیہ کے تحت منعقد کی جانے والی تمام میراتھن واکس میں مجموعی طور پر 2.7 ملین پاؤنڈز کی رقم اکٹھی کی جاچکی ہے اور 250 رفاہی اداروں میں یہ رقم تقسیم کی گئی ہے۔ ان اداروں کے نام اور ان کو دی جانے والی رقوم (دیگر معلومات کے ساتھ) متعلقہ ویب سائٹ پر موجود ہیں۔
اس کے بعد مکرم رفیع احمد بھٹی صاحب سیکرٹری میراتھن واک نے مختلف عوامی نمائندوں اور نامور شخصیات کے منتخب پیغامات پیش کئے اور چند اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹس سلائیڈز کے ذریعہ دکھائیں۔
اس سیشن کی آخری تقریر مکرم مولانا عبدالماجد طاہر صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر کی تھی جس کا موضوع تھا ’’برکاتِ خلافت۔ ذاتی مشاہدات کے آئینہ میں‘‘۔ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں خلافت کے مقام کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین وہی ہوسکتا ہے جو ظلّی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو۔ پس برکاتِ خلافت دراصل برکاتِ رسالت اور برکاتِ نبوّت کا ہی سلسلہ ہے اور جو اطاعتِ خلافت میں جس قدر ترقی کرتا چلاجاتا ہے اُسی قدر اُس کی اخلاقی اور روحانی اصلاح ہوتی چلی جاتی ہے۔
محترم مولانا صاحب نے خلافتِ احمدیہ سے بے لوث محبت اور غیرمعمولی عشق کے حوالہ سے دنیا کے مختلف ممالک میں پیش آنے والے نہایت مؤثر واقعات کا دلنشیں انداز میں تذکرہ کیا اور یہ واضح کیا کہ جس طرح خلیفۂ وقت کو احباب جماعت سے ایک گہری محبت کا تعلق ہوتا ہے اور وہ اپنی دعاؤں کے ذریعہ اُن کی روحانی اصلاح اور ترقیات کے لئے مسلسل کوشش کرتا چلا جاتا ہے اسی طرح احباب جماعت بھی خلافتِ حقّہ کے ایسے عشق میں گرفتار ہیں کہ خلیفۂ وقت کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے اور آپ کے وجود مبارک سے مستفید ہونے کے لئے ہر قربانی پیش کرتے چلے جاتے ہیں۔
مقرّر موصوف نے اپنی تقریر کا اختتام حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ایک دردمندانہ نصیحت کے ساتھ کیا جس میں حضورؓ نے احباب جماعت کو نہایت اخلاص اور وفا کے ساتھ خلافت احمدیہ سے چمٹے رہنے اور کامل اطاعت کرتے ہوئے اس کی برکات سے مستفید ہونے کی تلقین کی تھی۔ دعا کے ساتھ یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا۔
سالانہ اجتماع کا تیسرا روز
2؍اکتوبر2016ء بروز اتوار کی صبح اجتماع کے پانچویں سیشن میں چند علمی مقابلہ جات کا انعقاد ہوا۔ اسی دوران میدانِ عمل میں ورزشی مقابلہ جات کے فائنل بھی کروائے گئے۔ اجتماع کے چھٹے سیشن کا آغاز مکرم مولانا اخلاق احمد انجم صاحب مبلغ سلسلہ کی صدارت میں تلاوت و نظم سے ہوا۔ اس سیشن کی پہلی تقریر مکرم کلیم احمد طاہر صاحب سیکرٹری رشتہ ناطہ جماعت احمدیہ یوکے نے “Islamic family values and cultural values” کے موضوع پر انگریزی زبان میں کی۔
مقرر موصوف نے کہا کہ برابری، باہمی عزت، دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنا، محبت اور اعتماد کا سلوک کرنا… یہ وہ اقدار ہیں جنہیں اگر گھریلو زندگی میں شامل کیا جائے تو گھر جنّت کا نمونہ بن جاتے ہیں۔
ایک قدر جس کا اسلام میں حکم دیا گیا ہے وہ دوسروں کے حقوق کا احترام کرنے کا اصول ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دوسروں سے ایسے ہی برتاؤ کرو جیسا کہ تم اپنے ساتھ سلوک کیا جانا پسند کرتے ہو۔ جہاں بھی یہ سنہری اصول فراموش کیا جاتا ہے وہاں خاندانی نظام میں دراڑیں آجاتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ خاوند اور بیوی کا باہمی رشتہ ایسا ہونا چاہئے جیسے دو سچے اور مخلص دوستوں کے درمیان ہوتا ہے۔ کسی بھی شخص کے اخلاق اور اُس کے تعلق باللہ کی گواہ اُس شخص کی بیوی ہوتی ہے۔ جس کا اپنی بیوی سے حسن سلوک نہ ہو اُس کا خدا تعالیٰ سے بھی اچھا تعلق نہیں ہوسکتا۔
اس سیشن کی دوسری تقریر مکرم مولانا ظہیر احمد خان صاحب قائد تربیت مجلس انصاراللہ برطانیہ کی تھی۔ اردو زبان میں کی جانے والی اس تقریر کا موضوع ’’بچوں کی پرورش کے سنہرے اصول‘‘ تھا۔ اپنی تقریر میں مقرر موصوف نے قرآن و حدیث، حضرت مسیح موعودؑ اور خلفائے کرام کے ارشادات کی روشنی میں دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کے ساتھ ساتھ والدین کو اپنا نمونہ بچوں کے سامنے پیش کرنے کا تربیتی حکم بیان کیا۔
اجلاس کی آخری تقریر مکرم اخلاق احمد انجم صاحب نے اردو زبان میں ’’ذکرالٰہی کے ثمرات‘‘ کے موضوع پر کی۔ آپ نے بتایا کہ ہمارے دین کی تعلیم کی بہت سی شاخیں اور بہت سے پہلو ہیں مگر ہمارے دین کی عمارت کی بنیاد، اور ہمارے مذہب کے درخت کی جڑ، اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس سے تعلق اوراس سے محبت ہے۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احسانات اور اس کے حسن کو انسان ہر وقت یاد رکھے۔
مقرر موصوف نے قرآن و حدیث سے واضح کیا کہ ذکر الٰہی انوار کی کنجی ہے۔اس سے اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور انسان کی روحانی ترقی ہوتی ہے۔ ذکرالٰہی کی غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’انسان اللہ تعالیٰ کو فراموش نہ کرے اور اسے اپنے سامنے دیکھتا رہے اس طریق پر وہ گناہوں سے بچا رہے گا۔ … یاد رکھو کہ کامل بندے اللہ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا ہے لَاْتُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَلَابَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہ جب دل خدا کے ساتھ سچا تعلق اورعشق پیدا کرلیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں۔ اس کی کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آسکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کا دھیان اسی بچے میں رہے گا،اسی طرح پر جو لوگ خدا سے سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں وہ کسی حال میں بھی خدا تعالیٰ کو فراموش نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ صوفی کہتے ہیں کہ عام لوگوں کے رونے میں اتنا ثواب نہیں جتنا عارف کے ہنسنے میں ہے۔ وہ بھی تسبیحات ہی ہوتی ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے عشق اور محبت میں رنگین ہوتا ہے۔‘‘
مقرر موصوف نے کہا کہ حدیث میں ہے کہ عذاب الٰہی سے بچانے کے واسطے ذکر الٰہی سے زیادہ کوئی چیز موجب نجات نہیں۔ دراصل ذکرالٰہی، دل اور روح، دونوں کی غذا ہے۔ اور یہ چند خود تراشیدہ وظائف کا نام نہیں بلکہ نماز، تلاوت قرآن کریم، دعا اور استغفار، نوافل کی ادائیگی، آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنا، سب ذکرالٰہی میں آتا ہے۔
دعا کے ساتھ یہ اجلاس اختتام کو پہنچا۔
اجتماع کے اختتامی اجلاس کی صدارت حسب ہدایت حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مکرم ڈاکٹر چوہدری اعجازالرحمن صاحب صدر مجلس انصاراللہ برطانیہ نے کی۔ اس اجلاس میں تلاوت و نظم کے بعد مکرم قاری نواب احمد صاحب سابق صدر مجلس انصاراللہ بھارت نے اپنے خیالات کا مختصراً اظہار کیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو ترقیات سے نوازا اور قادیان کے قریب بٹالہ میں رہنے والے آپؑ کے شدید معاند کو ہرپہلو سے ناکام و نامراد کردیا۔
بعدازاں مکرم سیّد منصور احمد شاہ صاحب قائمقام امیر جماعت احمدیہ برطانیہ نے اپنی مختصر تقریر میں اجتماعات کے مقاصد پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ان تین دنوں میں ہمارے اندر کیا مثبت تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ نیز ان ایام میں جس طرح ہم نماز باجماعت ادا کرتے رہے ہیں، ہمیں واپس جاکر بھی اس سلسلہ کو جاری رکھنا چاہئے اور اس کو اپنی عادت بنالینا چاہئے کیونکہ بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کے لئے ہمارا عملی نمونہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔
اس کے بعد علمی اور ورزشی مقابلہ جات کے علاوہ عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی مجالس میں انعامات تقسیم کئے گئے۔ علم انعامی کے حوالہ سے مجموعی کارکردگی میں بڑے ریجنز میں اوّل ساؤتھ، دوم نورؔ اور سوم فضلؔ ریجن رہا۔ جبکہ چھوٹے ریجنز میں ساؤتھ ویسٹ اوّل قرار پایا۔ مجموعی کارگزاری کی بنیاد پر چھوٹی مجالس میں اوّل مجلس براملے اور لیوشم، دوم مجلس لیورپول اور سوم مجلس بکسلے قرار پائی۔ جبکہ بڑی مجالس میں سوم مجلس ناربری، دوم مجلس مچم جبکہ مجلس تھارٹن ہیتھ اوّل آکر علم انعامی کی حقدار قرار پائی۔
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے مذکورہ خطبہ جمعہ کے اُس حصہ کی ریکارڈنگ پیش کی گئی جس کا تعلق مجلس انصاراللہ کے سالانہ اجتماع سے تھا۔
بعدازاں مکرم ڈاکٹر منصور احمد ساقی صاحب ناظم اعلیٰ اجتماع نے مختصر رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ امسال 2009؍ انصار اجتماع میں شامل ہوئے جبکہ زائرین سمیت کُل حاضری 2836؍ رہی ہے۔
مکرم ڈاکٹر چوہدری اعجاز الرحمن صاحب صدر مجلس انصاراللہ برطانیہ نے اختتامی تقریر میں کہا کہ خطبہ جمعہ میں حضور انور ایدہ اللہ کی نصائح سننے کے بعد اب مجھے کچھ زیادہ نہیں کہنا ہے۔ موصوف نے مختلف امور کے بارہ میں معلومات دیتے ہوئے بتایا کہ حضور انور ایدہ اللہ کی ہدایات کی روشنی میں قرآن کریم کے چودہ پاروں کا لفظی ترجمہ اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی طبع ہوچکا ہے اور بہت کم قیمت پر (بغیر کسی منافع کے) دستیاب ہے۔ احباب کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
آپ نے کارڈف میں مسجد کی تعمیر کے لئے کی جانے والی کوششوں کا بھی ذکر کیا اور تعمیر کی اجازت جلدی مِل جانے اور اس پر عملدرآمد میں آسانی پیدا ہونے کے لئے دعا کی درخواست بھی کی۔ اپنی مختصر تقریر کے آخر میں مکرم صدر صاحب نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ایک ارشاد پیش کیا جس میں حضورؓ نے فرمایا ہے کہ انصاراللہ اپنی عمر کے لحاظ سے اگلے جہان میں جانے کی تیاری کررہے ہیں اور اس لئے اُن کا حساب صاف ہونا چاہئے۔
اسی طرح مکرم صدر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ارشاد پیش کیا جس میں حضورؑ نے نماز کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا ہے کہ انسان کو خدا کی عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔
دعا کے ساتھ، جو مکرم ڈاکٹر چوہدری اعجازالرحمن صاحب صدر مجلس انصاراللہ برطانیہ نے کروائی، یہ اجلاس اور سالانہ اجتماع بخیروخوبی اختتام پذیر ہوا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں