محبت، شفقت اور عقیدت کی دلپذیر داستان (دوسرا حصہ)

(مطبوعہ رسالہ انصارالدین مئی و جون2023ء)

مکرم خلیفہ فلاح الدین احمد صاحب (المعروف فِلّی بھائی) کی خلفائے کرام کے حوالے سے بیان کردہ خوبصورت یادوں پر مشتمل دوسری اور آخری قسط پیش ہے۔ قسط اوّل کے لیے براہ کرم جنوری فروری 2023ء کا شمارہ ملاحظہ فرمائیں۔ (مدیر)
(مرتبہ: محمد اسلم خالد + محمود احمد ملک)

محمد اسلم خالد صاحب
(محمود احمد ملک)

===============
خلافت رابعہ کے انتخاب کے دوران خاکسار چند دوستوں کے ساتھ مسجد مبارک ربوہ کی محراب کے باہر کھڑا تھا۔ جب انتخاب مکمل ہوا اور حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ خلیفۃالمسیح الرابع منتخب ہوگئے تو خاکسار نے اُسی وقت جاکر حضرت سیّدہ چھوٹی آپا صاحبہ کو اس کی اطلاع دی۔
کچھ عرصے بعد لندن میں مَیں نے ایک خواب دیکھا کہ مَیں مسجد مبارک ربوہ میں حضور کی خدمت میں سامنے کے دروازے سے حاضر ہوا ہوں اور دائیں طرف کے دروازے سے محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب اور میرے بڑے بھائی صباح الدین احمد صاحب داخل ہوئے ہیں لیکن حضور اُن کی طرف نہیں گئے بلکہ سیدھا میری طرف آئے ہیں۔ میں نے حضور کو سلام کیا۔ حضورؒ نے پوچھا:اچھا کب آئے ہو؟ پھر مَیں نے حضور کی خدمت میں کچھ تحائف پیش کیے۔ ایک سویٹرتھا جس کو دونوں طرف سے پہن سکتے تھے، ایک چھتری تھی اور ایک سلیپر۔
کچھ دن بعد لندن سے پاکستان جانے والے ایک دوست کے ذریعے خاکسار نے حضورؒ کی خدمت میں وہ تینوں چیزیں ارسال کردیں جنہیں مَیں نے خواب میں حضورؒ کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ حضورؒ نے وہ چیزیں قبول فرمالیں اور بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ اس کے بدلے میں حضور ؒ نے مجھے (میز پر رکھنے والی) ایک گھڑی بھجوائی جو آج بھی میرے زیرِاستعمال ہے۔
1984ء میں حضورؒ لندن تشریف لے آئے تو ایک بار جب ہم بریڈفورڈ جارہے تھے تو مَیں نے یہ خواب حضور کو سناکر اس کی تعبیر پوچھی۔ حضورؒ نے فرمایاکہ سلیپر کا مطلب تھا کہ مَیں سفر کروں گا۔ چھتری کا مطلب تھا کہ بارش والے علاقے کی طرف سفر کروں گا اور سویٹر کا مطلب تھا کہ اللہ تعالیٰ میری حفاظت فرمائے گا۔ مزید فرمایا کہ میں آیا ہوں ’فلاح الدین‘ کی طرف یعنی دین کی کامیابی کی طرف اور صبا ح الدین یعنی دین کی صبح کو اور غلام احمد یعنی اپنے دوستوں کو اپنے پیچھے چھوڑ آیا ہوں۔


1982ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ جب مسجد بشارت سپین کے افتتاح کے لیے تشریف لائے تھے تو لندن سے سپین تک (براستہ جرمنی) جانے اور واپسی کے سفر میں بھی ڈرائیو کرنے کی خاکسار کو توفیق ملی۔ واپسی کے سفر میں جب ہم فرانس میں رُکے تو پیرس میں ارشاد فرمایا کہ میرے بچوں کو White Chapel دکھانے کے لیے لے جاؤ۔ جب مَیں بچیوں کو لے کر وہاں پہنچا تو وہاں چھوٹی عمر کے بہت سے فقیر بچے بھی تھے۔ انہوں نے ہمیں گھیر لیا اور پیسے مانگنے لگے۔ مَیں دونوں بچیوں کو لے کر ایک طرف ہوگیا تو اس دوران جیب کترے میرا بٹوہ نکال لے گئے جس میں میرا ڈرائیونگ لائسنس، بینک کارڈز اور 350پاؤنڈ کی رقم بھی تھی۔ حضورؒ کے ارشاد پر پولیس کو رپورٹ کی گئی تاکہ کم از کم کار چلاسکوں۔ حضورؒ نے ازراہِ شفقت مذکورہ رقم مجھے عطا فرمادی۔ لیکن یہ امر حیرت کا باعث تھا کہ بعدازاں اُن چوروں نے مجھے میرا لائسنس اور بنک کارڈز بذریعہ ڈاک بھجوادیے اور لُوٹی ہوئی رقم کا شکریہ بھی ادا کیا۔


اسی دَور میں خاکسار نے ٹوٹنگ میں فرائیڈ چکن کی ایک دکان شروع کی تھی۔ میری دعوت پر حضورؒ ازراہِ شفقت اپنی فیملی اور چند خدام کے ہمراہ وہاں تشریف لائے، کھانا تناول فرمایا اور کافی دیر تک تشریف فرما رہے۔
1984ء میں خاکسار مجلس خدام الاحمدیہ یوکے کا نائب قائد اور ساؤتھ ریجن کا انچارج تھا۔ جب حضور ہجرت کرکے لندن تشریف لائے تو ایک رات پہلے مجھے مشن ہاؤس سے فون آیا کہ فورًا مسجد پہنچیں اور ہمراہ اپنی اہلیہ کو بھی لے آئیں۔ خاکسار نے اپنے بچوں کو ان کے نانا مکرم نذیر احمد ڈار صاحب کے ہاں چھوڑا اور ہم دونوں میاں بیوی کئی قسم کے وساوس لے کر رات گئے مشن ہاؤس پہنچ گئے۔ حکم ملا کہ (محمود ہال کے اوپر واقع) جس فلیٹ میں مکرم عطاء المجیب صاحب کی رہائش تھی اس کو خالی کرنا ہے اور ان کا سامان مسجد کے سامنے واقع گیسٹ ہاؤس نمبر49گریسن ہال روڈ میں شفٹ کرنا ہے۔ اس وقت اُس مکان میں لائبریری کی کتب رکھی ہوئی تھیں اور صرف ایک کمرہ خالی تھا۔ چنانچہ گھر کا سارا سامان چند خدام کی مدد سے اس خالی کمرے میں رکھ دیا گیا۔ جس فلیٹ سے سامان نکالا گیا تھا یعنی امام صاحب کی سابقہ رہائشگاہ کی صفائی وغیرہ لجنہ کی مدد سے کر کے، نئے بستر خرید کر اسے آراستہ کر دیا گیا۔
ابتدائی طور پر ہم چند لوگوں کو ہی علم تھا کہ حضور تشریف لارہے ہیں۔ چونکہ شرقِ اوسط (مڈل ایسٹ) کی حدود کے اندر حکومتِ پاکستان کہیں بھی جہاز اتروا سکتی تھی اس لیے جب تک حضور کا جہاز مڈل ایسٹ کی حدود سے باہر نہیں آگیا ہم سب بہت پریشانی میں رہے۔ جب جہاز انٹر نیشنل حدود میں داخل ہوگیا تو سب نے خداتعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ حضور کا جہاز خطرے سے باہر آ گیا ہے۔
حضور کو لینے کے لیے جب ہم ہیتھرو ایئر پورٹ پر پہنچے تو میری ڈیوٹی حضور کی کار کو ڈرائیو کرنے پر تھی۔ جب حضور کار میں تشریف فرما ہوئے تو پہلاسوال یہ پوچھا کہ نماز کا کیا وقت ہے؟ مکرم امام صاحب نے جواب دیا کہ ایک بجے۔ حضور پھر مجھ سے مخاطب ہوئے کہ کیا ہم اس وقت تک مسجد پہنچ جائیں گے؟ خاکسار نے جواب دیا: ان شاء اللہ حضور۔ اس پر حضورؒ نے فرمایا کہ بہت اچھا ہے کہ نماز تک پہنچ جائیں گے۔


مسجد فضل پہنچ کر حضور مع فیملی اوپر فلیٹ میں تشریف لے گئے اور پھر جلد ہی نماز ظہر کے لیے مسجد میں تشریف لے آئے۔ نماز کے بعد حضور نے یہ مختصر ہدایت دی کہ احباب جماعت کو اکٹھا کر لیں۔ چنانچہ اُسی شام محمود ہال میں نہایت اہم ہدایات پر مشتمل حضورؒ کا وہ خطاب ہوا جو جماعت کی تاریخ کا حصہ ہے۔
اگلے ہی روز خاکسار حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور وقفِ عارضی کے لیے خود کو پیش کیا۔ اس وقت اکثر احباب جماعت کا یہی خیال تھا کہ حضور محدود وقت کے لیے لندن تشریف لائے ہیں اور جلد ہی واپس تشریف لے جائیں گے۔ لیکن میرے ذہن میں یہ بات آتی تھی کہ آنحضرت ﷺ نے مکّہ سے مدینہ جب ہجرت کی تھی تو پھر اگرچہ مکّہ میں ایک فاتح کی حیثیت سے تو واپس تشریف لے گئے تھے لیکن اسلام کا مرکز مدینہ ہی رہا تھا۔ بہرحال حضورؒ نے میری وقف عارضی کی درخواست قبول فرمائی اور خداتعالیٰ کے فضل سے 1986ء کے آغاز تک مجھے حضورؒ کی خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ اُن ایّام میں ایک بار حضورؒ نے میری والدہ کے نام اپنے خط میں تحریر فرمایا کہ فِلّی تو اس طرح ہے جس طرح میرے کمرے کی دیوار ہو، جب بھی باہر نکلتا ہوں تو یہ باہر کھڑا ہوتا ہے۔


حضورؒ کے فلیٹ،دفتر اور سیڑھیوں کی چابیاں بھی میرے پاس ہی ہوا کرتی تھیں۔ مجھے ہدایت تھی کہ رات کسی بھی وقت جب پاکستان سے کوئی اطلاع آئے تو بِلاتوقّف حضورؒ کو بتا ناہے۔ اس ہدایت کے تابع کئی بار ایسا ہوا کہ رات کے پچھلے پہر بھی حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہونا پڑتا۔ خاکسار جب بھی جاتا اور سلام عرض کرتا تو حضورؒ فرماتے ’’فلّی مَیں آیا۔‘‘ جب بھی حضورؒ باہر تشریف لاتے تو کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ حضور سوئے ہوئے تھے یا نیند سے اٹھ کر آئے ہیں۔ یہی احساس ہوتا تھا کہ آپؒ جاگ رہے تھے۔ چہرۂ مبارک پر تازگی کا احساس نمایاں دکھائی دیتا۔
لمبے عرصے تک حضور کے کمرہ اور تیسرے فلور کے کمرہ، باتھ روم اور کچن کی صفائی کا کام میری بیوی نعیمہ اور میری بہن امۃالنصیر بٹ کو کرنے کا موقع ملتا رہا۔ 1992ء میں حضرت بیگم صاحبہ کی وفات کے بعد حضور ؒ نے ارشاد فرمایا کہ اب میرے کمرے کی صفائی صرف میری بیٹیاں کیا کریں گی۔ اس طرح یہ خدمت بند ہو گئی ۔
حضورؒ اپنےبال وغیرہ خود تراشا کرتے تھے اور پھر سب سے پوچھتے تھے کہ کیسے کٹے ہیں؟ سب تعریف کرتے تو حضورؒ فرماتے کہ نعیمہ سے پوچھوں گا وہ صحیح بتاتی ہے۔ حضور کو میری بیوی پر بہت اعتماد تھا۔
1986ء میں حضورؒ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ اب بہت لوگ دفتر میں آ گئے ہیں اس لیے اب آپ اپنا کام شروع کریں۔ اس پر مَیں نے عرض کیا کہ حضور! مَیں اپنی زندگی وقف کرتا ہوں۔ حضور نے فرمایا بھاگ جاؤ یہاں سے، مجھے علم ہے کہ اس کے باوجود بھی تم جماعت کو بہت وقت دو گے۔
پھر فرمایا کہ اب تم کام کرو اور اپنی فیملی کی دیکھ بھال کرو۔
کام کرنے کی ہدایت پر خاکسار نے عرض کیا کہ حضور مَیں کیا کام کروں، دکان تو مَیں نے بیچ دی ہے۔ اس پر حضور نے فرمایا: مجھے علم ہے۔
پھر حضور نے ازراہِ شفقت فرمایا کہ تم نے واپڈا میں بھی کام کیا ہوا ہے، اس کا تجربہ بھی ہے اس لیے تم بلڈنگ ڈیکوریشن کا کام شروع کرو اور ساتھ ہی Mini Cab بھی کرو۔ لیکن Mini Cab فل ٹائم کرو اور بلڈنگ کا کام پارٹ ٹائم کرنا۔ اُس وقت تک خاکسار بینک کے 14ہزار پاؤنڈ کا مقروض ہوچکا تھا جس پر حضورؒ نے فرمایا کہ 14ہزار پاؤنڈ مجھ سے قرض کے طور پر لے لو لیکن اس شرط پر کہ یہ قرض تم نے محنت کر کے اگلے تین سال میں اتارنا ہے۔
الحمد للہ کہ حضور کی دعاؤں سے یہ قرض تین سال کے اندر اندر ادا ہوگیا۔ حضور کی شفقت نے مجھے سود در سود بڑھتی چلی جانے والی بینک کی قسطوں سے نجات دلائی۔ حضورؒ کی ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ جب تک یہ قرض اتر نہ جائے تم نے مسجد بہت کم آنا ہے، اس کی ادائیگی کے بعد تمہیں خدمت کرنے کا مزہ بھی آئے گا۔ چنانچہ مَیں نے حضورؒ کی ہدایت پر عمل شروع کردیا۔


اگر چہ یہ زمانہ حضورؒ سے جسمانی طور پر دُوری کازمانہ تھا لیکن حضورؒ نے مجھے بھلایا نہیں جس کا اظہار حضورؒ نے اپنے خطوط میں بھی کیا اور سفروں کے دوران لکھے گئے خطوط میں بھی مجھے لکھا کہ ’’فِلّی! مَیں تمہیں بھول نہیں گیا۔‘‘ بلکہ ہر سفر سے واپسی پر آپؒ میرے لیے ضرور کوئی نہ کوئی تحفہ بھی لے کر آتے تھے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس عرصے کے دوران حضورؒ نے مجھے کام پر صرف لگایا ہی نہیں بلکہ میری نگرانی بھی فرماتے رہے۔ ملاقات کے دوران میرے رشتہ داروں اور ملنے والوں سے حضور دریافت فرمایا کرتے کہ فِلّی کو کہاں اور کب دیکھا ہے؟ ایک بار مکرم صاحبزادہ مرزا نسیم احمد صاحب بھی ربوہ سے لندن تشریف لائے ہوئے تھے۔ حضورؒ نے اُن سے بھی دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ حضور! وہ سٹیشن پر کھڑا رو رہا تھا۔ حضورؒ پریشان ہو گئے اور پوچھا کہ کیوں رو رہا تھا؟ میاں صاحب نے بتایا:’’اس لیے کہ آج بارش نہیں ہوئی اور اس کے کسٹمر بہت کم آ ئے ہیں۔ ‘‘ اس پر حضور خوب ہنسے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ ان تین سال کی شب و روز کی محنت میں خاکسار کی اہلیہ صاحبہ نے میرا بہت ساتھ دیا۔ نہ صرف کسی چیز کا مطالبہ نہ کرتیں بلکہ گھر کی شاپنگ میں بڑی حد تک کفایت شعاری شروع کردی۔ بعض لوگ مذاق بھی کرنے لگ گئے کہ کیا تمہارے پاس بس ایک ہی کپڑوں کا سوٹ اور ایک ہی جوتوں کا جوڑا ہے جوہمیشہ یہی پہنے رہتی ہو۔ وہ سب کی باتیں سنی اَن سنی کر دیتیں اور صرف ایک مقصد کے لیے مسلسل قربانی کرتی رہیں۔
جب قرض کی آخری قسط ادا کر دی تو خاکسار اطلاع دینے کے لیے حاضر ہوا اور مکرم مبارک احمد ساقی صاحب (جو اُن دنوں پرائیویٹ سیکر ٹری تھے) سے کہا کہ حضور کی خدمت میں اطلاع کر دیں کہ قرض کی تمام اقساط ادا ہو گئی ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ یہ تمہارا اور حضور کا ذاتی معاملہ ہے اس لیے مناسب یہی ہے کہ خود مل کر اطلاع کرو۔ چنانچہ خاکسار حاضرِ خدمت ہوا۔ حضور کا شکریہ ادا کیا اور عرض کیا کہ آج خدا کے فضل سے آخری قسط کی ادائیگی کر کے آ رہا ہوں۔ حضورؒ نے مجھے مشورہ دیا کہ جس فلیٹ میں تم رہائش پذیر ہو اس فلیٹ کو خرید لو۔
اس مشورے اور نصیحت کا فوری فائدہ یہ ہوا کہ فلیٹ اپنا ہو گیا اور دوسرے محنت کی جو عادت پڑ گئی تھی وہ بھی جاری رہی۔ ہمارے اس غریب خانہ پر حضور انور تین بار تشریف لائے۔ 1999ء میں حضور نے فرمایا کہ اب بچے تمہارے بڑے ہو گئے ہیں اس لیے ایک مکان خرید لو لیکن دُور نہ لینا۔
پھر ہم دونوں میاں بیوی نے بہت سے مکان دیکھے لیکن پسند نہ آئے۔ ایک مکان پسند آیا لیکن وہ ہماری پہنچ سے بہت بڑھ کر تھا۔ حضور نے جب رپورٹ لی تو ہم نے عرض کیا کہ حضورؒ مکان نہیں مل رہا لیکن جو پسند آیا ہے اس کی قیمت ہماری استطاعت سے بہت زیادہ ہے۔ حضور نے دریافت فرمایا کہ کیوں پسند آیا ہے؟ ہم نے اس کی مکانیت اور لوکیشن (محلّ وقوع) وغیرہ کے بارے میں بتایا تو دریافت فرمایا کہ قیمت کا کتنا فرق ہے؟ مَیں نے عرض کیا50:ہزار کا۔ حضورؒ نے فرمایا کہ آفر دے دیں جتنی آپ کی گنجائش ہے۔ مَیں نے آفر کر دی جسے سنتے ہی مالکان نے انکار کر دیا۔ ہم نے انہیں صاف صاف بتا دیا کہ ہم اس سے زائد کی طاقت ہی نہیں رکھتے۔


پھرہم میاں بیوی نے فیصلہ کیا کہ جب تک یہ مکان بک نہ جائے ہم دوسرا مکان دیکھنے نہیں جائیں گے۔ تین ماہ کے بعد میرے ایجنٹ نے ہمیں بتا یا کہ مالک مکان کا کوئی نقصان ہو گیا ہے اور فوری طور پر وہ مکان آکشن (نیلامی) میں لے جارہاہے۔ خاکسار پھر مالک مکان کے پاس گیا کہ تمہیں آکشن میں مکان بیچنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا سارا کچھ تو بینک لے جائے گا، میری تمہیں وہی پیش کش ہے اگر تم اسے قبول کرو تو!۔ مالک مکان نے بات سنی اور ہنس کر ٹال دی اور کہا کہ اب تو مکان اَور بھی مہنگا ہو چکا ہے۔ پھر ہمارے ایجنٹ نے اس کی اہلیہ سے رابطہ کیا اور اسے بھی سمجھایا کہ آکشن میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ بہرحال آکشن سے ایک ہفتہ قبل مالک مکان نے مجھ سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا مَیں اب بھی تیار ہوں اور اپنی آفر پر قائم ہوں اور کیا رقم تیار ہے ؟ خاکسار نے کہا کہ میری طرف سے اب بھی وہی پیش کش ہے اور رقم بھی تیار ہے۔ مالک مکان نے مجھے فوری کارروائی کے لیے کہا۔ میرے ایجنٹ نے بھی بڑی تیزی اور محنت سے جلد سروے کرواکر رقم کی ادائیگی کردی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضورانور کی بات اور خواہش کو میرے لیے پورا فرما دیا۔ الحمدللہ
اکتوبر 2001ء میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مکان کی چابی مل گئی اور جنوری 2002ء میں مکان تیار ہو گیا تو مَیں نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ دعا کے لیے تشریف لائیں اس پرحضورؒ نے فرمایا: جب تک بیگم صاحبہ زندہ تھیں تو مَیں فیملی وزٹ کر لیا کرتا تھا لیکن اب مَیں اکیلے جانا مناسب نہیں سمجھتا۔ مَیں دعا کردوں گا۔ (بعدازاں 2004ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ ہمارے ہاں تشریف لائے اور برکت بخشی۔ الحمدللہ)
جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ بیمار ہوئے تو مجھے بفضل اللہ تعالیٰ خدمت کی توفیق ملتی رہی، گھر پر بھی اور اسپتال میں بھی۔ اس میں روزمرّہ کی ڈیوٹیاں بھی تھیں اور کھانا وغیرہ لے کر جانے کی سعادت شامل تھی۔
جب حضورؒ کی وفات ہوگئی تو اس وقت بھی حضورؒ کی فیملی کے لیے کھانے وغیرہ کے انتظامات کرنے کی توفیق ملتی رہی۔ حضورؒ کی وفات کے بعد حضورؒ کی چند منفرد یادوں کے حوالے سے میرا ایک انٹرویو ’’محبتوں اور شفقتوں کا بحرزخّار‘‘ کے عنوان سے مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے رسالہ ’’طارق‘‘ (سیّدنا طاہر نمبر) میں شائع ہوا تھا۔ مکمل انٹرویو ویب سائٹ khadimemasroor.uk پر موجود ہے۔ ذیل میں اس انٹرویو کے ایسے منتخب حصے ہدیۂ قارئین کیے جارہے ہیں جو درج بالا مضمون سے اضافی ہیں۔

(رسالہ ’’طارق‘‘ (سیّدنا طاہر نمبر) میں شائع ہونے والے مطبوعہ انٹرویو سے انتخاب)

مکرم خلیفہ فلاح الدین صاحب نے بتایا کہ میرا حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ سے تعارف 1947ء میں ہوا جب آپؒ کی عمر قریباً اٹھارہ سال تھی۔ 1951ء میں ہم لاہور سے ربوہ منتقل ہو گئے تو پھر آپؒ سے اکثر ملاقات رہنے لگی۔ ہم ایک دوسرے کے گھر بھی آتے جاتے ، دریا اور جھیلوں پر شکار کے لیے بھی اکٹھے جاتے۔ کئی بار مَیں نے حضور ؒ سے کار بندوق اور کیمرہ وغیرہ عاریۃً لیا۔ آپ نے کبھی انکار نہیں کیا۔ بہت ہی شفیق انسان تھے۔
جب حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ خدام الاحمدیہ مرکزیہ میں مہتمم مقامی ربوہ بنے تو اس وقت مَیں اپنے محلہ کا زعیم تھا۔ اس وقت بھی مجھے ربوہ میں آپ کے ساتھ کام کرنے کا بہت موقع ملا۔ اسی دوران جب سیلاب آیا تو آپؒ نے سیلاب زدہ علاقے میں ایک امدادی گروپ بھیجا جس کا مجھے انچارج مقرر کیا۔ پھر جب 1965ء میں خلافتِ ثالثہ کا انتخاب ہو ا تو اس وقت میں نائب قائد ضلع لاہور تھا۔ اس وقت بھی مجھے آپؒ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔
حضوربہت ہی شفیق اور بہت اعلیٰ منتظم تھے۔ 1966ء میں آپ ؒ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے صدر منتخب ہوئے تو مجلس کے کام کو بہت آگے تک لے گئے اور خدام کو بہت چست بنا دیا۔ اس وقت کا زمانہ خدام الاحمدیہ کا سنہری دَور تھا۔ جہاں بھی وقارِعمل کی ضرورت ہوتی تھی آپ کی ٹیم تیار ہو تی تھی۔ ربوہ میں حفاظت مرکز کے لیے بھی خاص طور پر بہت کام کیا۔ اس حوالے سے آپ کی ایک سکیم یہ تھی کہ ربوہ کے اندر سے گزرنے والی بڑی سڑک سے رات کو جب ٹرک گزرتے تھے تو حکم یہ تھا کہ دس آدمی سڑک کے ایک طرف اور دس دوسری طرف بندوقیں پکڑ کر چکر لگاتے رہیں۔ جب ٹرک کی روشنی آدمیوں پر پڑتی تھی تو وہ یہی سمجھتے تھے کہ مسلح آدمیوں نے سارے ربوہ کو گھیر ے میں لے رکھا ہے۔
1982ء میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی وفات کی اطلاع ملی تو حضور ؒ کے جنازہ کے لیے محترم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب (جو اُن دنوں لندن میں میرے پاس ٹھہرے ہوئے تھے)، حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب ؓ اور میرے علاوہ بعض اَور لوگ بھی ایک ہی جہاز میں پاکستان کے لیے روانہ ہوئے۔ جب ہم ربوہ پہنچے تو میرے بھائی صباح الدین احمد صاحب کی بھی وہاں ڈیوٹی لگی ہوئی تھی۔ وہ مجھے اندر لے گئے اور میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے جسدِ اطہر کے پاس دو گھنٹے بیٹھا رہا۔ اس دوران حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ؒ نے تین چار چکر انتظامات دیکھنے کے لیے وہاں کے لگائے۔ وہیں میری حضورؒ سے ملاقات ہوئی۔ یہ انتخابِ خلافت سے پہلے کی بات ہے۔ مجھے یاد ہے کہ خلیفہ بننے کے بعد دوسرے دن ہی حضورؒ نے اپنی سائیکل پکڑی اور اپنی زمینوں پر چلے گئے جو ربوہ سے تین چار میل کے فاصلے پر احمد نگر میں ہیں۔ آپ کے پیچھے ہی کاریں روانہ ہوئیں، باڈی گارڈ بھاگے۔ ہم سب نڈھال تھے۔


حضورؒ کی ہجر ت کے حوالے سے مکرم فلاح الدین احمد صاحب نے بتایا کہ 30؍اپریل 1984ء کو علی الصبح چار بجے مجھے مکرم عطاء المجیب راشد صاحب کا فون آیا کہ فورًا مسجد پہنچ جائیں۔ وہاں پہنچے تو حضورؒ کی رہائش گاہ کی تیاری کا موقع ملا۔ پھر میرے سپرد حضور کو ڈرائیو کر کے ایئرپورٹ سے مسجدفضل تک لانے کا کام بھی تھا۔ ایئرپورٹ سے باہر جب مَیں حضور ؒ سے ملا تو مجھے بالکل سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کیا کہوں۔ خوشی کا اظہار کروں یا افسوس کا اظہار کروں۔ مَیں بہت خوش تھا کہ حضورؒ ہمارے پاس آئے ہیں۔ لیکن جن حالات میں حضورؒ آئے تھے وہ بہت مشکل حالات تھے۔
حضورؒ جب کار میں بیٹھ گئے تو اس وقت قریباً پونے بارہ بجے تھے۔ حضورؒ نے گاڑی میں بیٹھتے ہی جو پہلا سوال پوچھا وہ یہ تھا کہ ظہر کی نماز کا کیا وقت ہے ؟ امام صاحب نے کہا کہ حضور! ایک بجے ہے۔ تو حضور نے فرمایا تو پھر ٹھیک ہے ہم ایک بجے تک مسجد پہنچ جائیں گے۔ اُس وقت حضورؒ بہت تھکے ہوئے تھے لیکن پہلا کام جو کرنا چاہتے تھے وہ نماز تھی۔ اس کے بعد کچھ دن تو حضورؒ ربوہ اور پاکستان والوں کے لیے بہت پریشان اور بے حد مصروف رہے۔ پھر آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور حالات کچھ ٹھیک ہوئے تو حضور ؒ نے سیر کے لیے بھی جانا شروع کر دیا۔
جب سیر کا پروگرام بنایا تو پھر اس کے لیے جگہ پسند کرنی تھی۔ پہلے ہم دو تین دن انرپارک (Innerpark) میں سیر کے لیے گئے مگر حضورؒ نے فرمایا کہ ادھر مزہ نہیں آیا۔ پھر کچھ دن ہم روہیمپٹن کامن (Rohampton Common) کی طرف جاتے رہے۔ حضورؒ فرمانے لگے کہ یہاں پر گند بہت ہے۔ پھر میں نے ومبلڈن کامن (Wimbledon Common) والی جگہ ڈھونڈی اور حضور کو بتا یا تو حضورنے جاکر دیکھا اور فرمایا کہ ہاں یہ جگہ بالکل ٹھیک ہے۔ یہاں پہاڑی بھی ہے اور جھیل بھی ہے، Nature بھی ہے۔ آخر تک پھر حضورؒ وہیں پر سیر کے لیے جاتے رہے۔ جب تک موقع ملا اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقریباً روز ہی میں حضور ؒ کے ساتھ سیر کے لیے جایا کرتا تھا۔ 1991ء تک میں ہی Lead کرتا رہا۔ شاید ہی کبھی ہوا ہو کہ مَیں حاضر نہ ہو سکا ہوں۔
ایک دفعہ مجھے مسجد پہنچنے میں دیر ہو گئی۔ مسجد فون کیا تو پتا لگا کہ حضور سیر کے لیے نکل چکے ہیں۔ مَیں فوراً بھاگا اور سیدھا سیرگاہ میں پہنچ گیا۔ دیر سے پہنچنے پر حضور ؒ نے جو سب سے پہلا سوال مجھ سے پوچھا وہ یہ تھا کہ کیا آپ نے نماز پڑھی ہے ؟ حضور کو لگا کہ میں بھاگا آیا ہوں کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ میں نے جلدی میں نماز چھوڑ دی ہو۔ حضورؒ کو یہ بہت خیال ہوتا تھا کہ جو لوگ میرے ساتھ چلتے ہیں یا کام کرتے ہیں وہ نماز کے پابند ہوں۔ آپؒ ہماری جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ روحانی صحت کا بھی خیال رکھتے تھے۔
حضور ؒ کے خطبات اور تقاریر کے دوران مجھے قہوہ پیش کرنے کا موقع بھی ملتا رہا۔ اس کی کہانی بہت پرانی ہے۔ یہ ربوہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ کے زمانے کی بات ہے جب میں خادم تھا۔ اس زمانے میں مکرم صاحبزادہ ڈاکٹرمرزا منور احمد صاحب چائے بنا کر حضورؓ کو پیش کیا کرتے تھے۔ جب میری ڈیوٹی سٹیج پر ہوتی تھی تو وہ مجھے کہتے تھے کہ تم ذرا حضورؓ کے سامنے پیالی رکھ دو۔


پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی بیگم صاحبہ سٹیج کے پیچھے کار میں بیٹھ کر قہوہ بنایا کرتی تھیں اور ہم وہاں سے لے کر آتے اور حضورؒ کی خدمت میں پیش کردیتے تھے۔ پھر جب میں نائب قائد ضلع لاہور تھا تو تب بھی مجھے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کو (جب وہ پہلی دفعہ ربوہ سے لاہور آئے تھے تو) تقریر کے دوران قہوہ پیش کرنے کا موقع ملا۔ لندن میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ کی پہلی تقریر ہوئی تو محترم ہدایت اللہ بنگوی صاحب نے قہوہ بنایا لیکن اُن کا قہوہ کبھی گاڑھا ہو تا تھا،کبھی ہلکا ہوجا تا تھا۔ چنانچہ حضرت بیگم صاحبہؒ کی نگرانی میں لجنہ نے اوپر قہوہ بنانا شروع کیا مگر وہ بھی نیچے پہنچتے پہنچتے کبھی ٹھنڈا ہو جاتا تھا تو کبھی ٹھیک نہیں بنتا تھا۔ اس پر مَیں نے حضرت بیگم صاحبہؒ سے کہا کہ اگر آپ کی اجازت ہو تو میں نیچے ہی قہوہ بنا دیا کروں؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں یہ تو بہت اچھا کام ہو گا لیکن ایک بات کا خیال رکھنا کہ برتن تودُھل جاتے ہیں مگر شہد نہیں دُھل سکتا۔ (ان کا مطلب یہ تھا کہ خیال رکھنا کہ دشمن کوئی چیز نہ ملانے پائے۔ احتیاط کرنا، تم لے تو رہے ہو یہ کام، مگر ہے بہت بڑی ذمہ داری۔) تو یہ ایسی نصیحت تھی آپ کی جس کا مَیں نے ہمیشہ خیال رکھا۔ اگر کہیں جانا پڑتا تھا تو میں باقی سامان تو چھوڑ دیتا مگر شہد اپنے ساتھ ہی لے جاتا تھا۔ ہمیشہ اپنی جیب میں ہی رکھتا تھا۔ ویسے بھی شہد قہوے میں سب سے آخر میں ہی ڈالتے ہیں ورنہ قہوے کا رنگ بھی بدل جاتا ہے اور ٹھنڈا بھی ہو جاتا ہے۔
خاکسار کے دریافت کرنے پر مکرم فلاح الدین صاحب نے بتایا کہ قہوہ تیار کرنے کی Recipe یوں ہے کہ اس میں کشمیری Long green tea کی دو یا تین پتیاں اور تین چار الائچی کے دانے (بغیر چھلکے کے) ڈال دیں (الائچی کا چھلکا گلے کو خراب کرتا ہے) اور استعمال سے پہلے ذرا سا شہد بھی ملادیں۔ یعنی سب سے پہلے تھرموس کو گرم کر کے اس میں چائے کی پتی اور الائچی ڈال دیں۔ پھر اس میں دوتین کپ ابلتا ہوا پانی ڈال دیں اور کچھ دیر رہنے دیں۔ پھر جب پیش کرنے لگیں تو اس میں خالص شہد ڈال دیں۔ کوئی بھی خالص شہد ڈال سکتے ہیں۔ ویسے ربوہ میں حضورؒ کے لیے شہد پشاور سے آتا تھا۔ جرمنی سے بھی آتا تھا۔ ایک دفعہ کالا شہد آگیا تھا۔ جس چیز میں اُسے ڈالتے تھے وہ چیز کالی ہوجاتی تھی۔
حضورؒ بہت تیز چائے پیتے تھے۔ جب ہم سپین گئے تو سفر کے دوران کہیں سے اچھی چائے نہیں ملی۔ حضور جب بھی چائے پیتے تو فرماتے کہ چائے کا مزہ نہیں آیا۔ قرطبہ میں قیام کے دوران مَیں خود ہوٹل کے کچن میں گیا اور حضور ؒ کے لیے چائے بنا کر لایا۔ حضور ؒ نے چائے بہت پسند فرمائی اور خوش ہوکے مجھے دس پاؤنڈ انعام میں دیے جو اَب بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔
حضورؒ نے لندن آنے کے بعد پہلے (مسجد فضل لندن کے سامنے واقع) گیسٹ ہاؤس نمبر 41 خریدا۔ پھر اسلام آباد خریدا۔ جب اسلام آباد خریداگیا تو حضورؒ نے سارے اسلام آباد کا چکر لگایا اور بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ جگہ ہمارے جلسے اور دوسرے کاموں کے لیے کافی ہو گی۔
ایک دفعہ جرمنی سے واپسی کے سفر میں مَیں ڈرائیو کر رہا تھا۔ رات کے دو بج رہے تھے اور مجھے بہت سخت نیند آ رہی تھی۔ مَیں نے حضورؒ سے پوچھا کہ حضور ریڈیو لگالوں؟ فرمانے لگے کہ کچھ فائدہ ہو گا؟ مَیں نے کہا کہ حضو رطبیعت ذرا Fresh ہوجاتی ہے۔ تو حضور ؒ فرمانے لگے کہ لگا لو۔ حضورؒ کا مطلب یہ تھاکہ اگر کسی چیز کا فائدہ زیادہ ہے تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سب سے لمبا سفر جس میں خاکسار نے حضور ؒ کی کار ڈرائیو کرنے کی سعادت بھی پائی وہ 1982ء میں سپین کا سفر تھا جس میں ہم یہاں (لندن) سے ہالینڈ گئے تھے۔ وہاں سے جرمنی ۔ اور جرمنی سے پھر فرانس کے راستے سپین گئے اور پھر وہاں سے لندن واپس آئے تھے۔ اس کے علاوہ اس خادم کو سوئٹزرلینڈ، ڈنمارک اور ناروے تک بھی حضور کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملا۔


1986ء میں ایک روز حضورؒ نے مجھے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ دیکھو اب اَور بھی بہت لوگ ٹرینڈ ہو گئے ہیں اس لیے اب تم اپنا کام شروع کر دو۔ تو میں نے کہا کہ حضور میں اپنی زندگی وقف کرتا ہوں۔ حضور نے فرمایا: نہیں، مجھے پتہ ہے کہ تم وقف کرنے کے بغیر بھی زیادہ وقت دو گے لیکن تمہارے بیوی بچوں کا بھی حق ہے۔ اب تم کوئی کام شروع کرو۔ میں نے پوچھا کہ حضورؒ میں کیا کام شروع کروں؟ حضور نے فرمایا کہ Mini Cab کا کام شروع کرو اور بلڈنگ کا سائیڈ بزنس رکھو۔ الحمدللہ حضور کی دعاؤں سے میرے کام میں بہت برکت پڑی اور سارے مسائل حل ہوتے گئے۔
خدام کے نام کوئی پیغام دینے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں مکرم فلاح الدین صاحب نے کہا کہ ’’ خلافت احمدیہ کے حوالے سے میں برطانیہ کے خدام کو مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر آپ نے خلیفۂ وقت سے کوئی صلاح مانگی ہے، چاہے وہ کسی کام کے بارے میں ہو یا شادی وغیرہ کے بارے میں، تو پھر اس صلاح کو مانیں، اسی میں برکت اور کامیابی ہے۔ ہاں اگر آپ دعا کے لیے کہیں تو وہ الگ بات ہے لیکن اگر آپ صلاح مانگیں تو پھر اس کو مانیں۔ میری زندگی کا یہی سبق مجھے ملا ہے۔ ‘‘

(مطبوعہ انٹرویو کا خلاصہ یہاں ختم ہوتا ہے)

2003ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی وفات ہوئی تو اگلے روز حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ناظر اعلیٰ اور امیرمقامی کی حیثیت سے لندن تشریف لائے اور نمبر 65میلروز روڈ (گیسٹ ہاؤس) میں قیام فرمایا۔ اس وقت مجھے آپ کی اور دیگر مہمانوں کی خدمت کی توفیق ملی۔

جب پہلی بار حضورانور کی خدمت میں چائے پیش کی تو حضور نے فرمایا کہ آپ بہت تکلّف کرتے ہیں۔ میں نے عرض کیا حضور چائے کے ساتھ صرف بسکٹ ہیں۔ اس پر حضور نے فرمایا میرا مطلب یہ ہے کہ آپ چائے کی پتی بہت کم ڈالتے ہیں، مَیں strong چائے پیتا ہوں۔
دوسرے روز ہی حضور نے پوچھا کہ vacuum cleanerکہاں پڑا ہے؟ مَیں نے حیرت کا اظہار کیا تو حضور نے فرمایا کہ تمہارے پاس تو وقت نہیں ہوتا، مَیں نے سوچا کہ مَیں خود صفائی کر لیتا ہوں کافی گند پڑگیا ہے۔ اس توجہ پر خاکسار نے خود صفائی کردی۔


حضور کی تشریف آوری پر مَیں نے حضور کے لیے گیسٹ ہاؤس کا بڑا بیڈ روم تیار کیا ہوا تھا۔ جب آپ کو وہ کمرہ دکھایا اور سامان وغیرہ اس میں رکھ دیا تو آپ نے پوچھا کہ میاں وقاص کہاں ٹھہرے ہوئے ہیں؟ مَیں نے عرض کیا کہ وہ باکس روم میں ہیں۔ باکس روم بہت ہی چھوٹا کمرہ تھا جس میں ایک چارپائی اور ایک کرسی بمشکل آتی تھی۔ حضورؓ نے فرمایا کہ اُن کو کہیں کہ وہ نیچے سٹنگ روم میں صوفے پر سوجایا کریں اور مَیں اوپر اُن کے کمرے میں رہوں گا اور یہ بڑا کمرہ مکرم چودھری حمیداللہ صاحب اور وکیل المال صاحب کو دے دیں۔
انتخابِ خلافتِ خامسہ کے وقت خاکسار اور مرزا لقمان احمد صاحب محمود ہال کے باہر کی سیڑھیوں میں کھڑے تھے۔ مَیں نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ کی وہ پگڑی تھامی ہوئی تھی جو خلافت کے انتخاب کے بعد نومنتخب خلیفہ کی خدمت میں پیش کرناتھی۔ جب حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کے مسند خلافت پر متمکّن ہونے کا اعلان ہوا تو میاں لقمان صاحب مجھ سے پگڑی لے کر جلدی سے مسجد فضل میں تشریف لے گئے مگر مجھے سیکیورٹی والوں نے اندر جانے سے روک دیا۔ اس وقت میرے دل میں بڑی شدّت سے خواہش پیدا ہوئی کہ میرا بھی اللہ تعالیٰ کوئی سبب بنادے تاکہ مَیں حضور کو مل سکوں۔ عین اُس وقت مجھے حضورانور کی آواز مائیک پر سنائی دی کہ ’’فلّی بھائی کہاں ہیں؟ ان سے کہو ٹشو لے کر آئیں۔‘‘ یہ سنتے ہی خاکسار بھاگا بھاگا اپنی کار تک گیا اور ٹشو کا ڈبہ لے کر بھاگتا ہوا ہی واپس آیا تو سیکیورٹی والوں نے مجھے دوبارہ روک لیا۔ لیکن اس بار مجھے تسلی تھی کہ حضور نے میرا نام لے کر ارشاد فرمایا ہے۔ اس لیے میں حضور کا حوالہ دیتے ہوئے زور لگا کر زبردستی اندر چلا گیا اور حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر ٹشو پیش کیے اور آپ سے گلے ملا۔ اس وقت میری زبان پر بے اختیار الحمد للہ الحمدللہ الحمدللہ جاری ہوگیا۔ حضور کے سینے سے مَیں اُس وقت لگا رہا اور حضور نے بھی مجھے اُس وقت تک اپنے سینے سے لگائے رکھا جب تک کہ مرزا لقمان صاحب نے پیچھے سے کھینچ کر ہٹا نہیں دیا۔
بعد ازاں خاکسار نمبر 41گریسن ہال روڈ (گیسٹ ہاؤس) میں حضور کی رہائش کا انتظام کرنے کے لیے چلاگیا۔ حضورایدہ اللہ تعالیٰ کا سامان پہلے گیسٹ ہاؤس واقع 65 Melrose Roadسے نئی قیام گاہ 41گریسن ہال روڈ (گیسٹ ہاؤس) میں منتقل کر دیا اور رات کے کھانے کا انتظام بھی وہیں کر دیا۔
چند دن بعد آپاجان بھی تشریف لے آئیں۔ حضور اُس وقت تک نمبر41 گریسن ہال روڈ (گیسٹ ہاؤس) میں ہی قیام فرما تھے اور آپ سنگل بیڈ استعمال فرمایا کرتے تھے۔ آپا جان کی آمد سے قبل مجھ سے ایک گستاخی ہو گئی کہ جب مجھے آپا جان کی آمد کا پتہ چلا تو مَیں نے بغیر اجازت کے ہی وہاں سنگل بیڈ نکلواکر ڈبل بیڈ ڈلوادیا۔ دفتر سے فارغ ہوکر جب حضور شام کے وقت قیام گاہ میں تشریف لائے تو فرمایا کہ میری اجازت کے بغیر میرا بیڈ کس نے بدلا ہے؟ جب عرض کیا گیا کہ فِلّی نے کر دیا ہے تو حضور خاموش رہے اور کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہ کیا۔
حضورایدہ اللہ تعالیٰ کے انتخابِ خلافت کے بعد جب تک حضرت بیگم صاحبہ تشریف نہ لائیں تب تک حضور کا ناشتہ بنانے کی سعادت خاکسار کو ہی ملتی رہی۔ نیز کھانا بھی پیش کرتا رہا جو مکرم فضل ڈوگر صاحب تیار کیا کرتے تھے۔ حضرت بیگم صاحبہ کی آمد کے بعد سارا انتظام لجنہ کے سپرد کر دیا گیا اور خاکسار کے پاس صرف حضور کے قہوے کا انتظام ہی رہ گیا۔ بفضل اللہ تعالیٰ یہ سعادت اب تک اس عاجز کے حصے میں آرہی ہے۔ علاوہ ازیں حضورانور جب بھی جماعتی تقریبات یا شادیوں پر تشریف لے جاتے ہیں تو حضور کی خدمت میں کھانا پیش کرنے کی سعادت بھی مل جاتی ہے۔ الحمد للہ۔ حضور کی خدمت میں کھانا پیش کرنے کے لیے ایک دو بار کسی اَور کے سپرد ڈیوٹی ہوئی تو ازراہ شفقت حضور نے فرمایا: جب فِلّی مجھے serve کرتا ہے تو مجھے کسی چیز کی فکر نہیں ہوتی۔ ایک بار ایک مربی صاحب حضور کی خدمت میں کھانا پیش کر رہے تھے تو حضور نے انہیں فرما یا: اگر آپ کو serve کرنے کا شوق ہے تو فلّی سے ٹریننگ لے لیں۔


ایک ملاقات کے دوران حضورانور نے مجھے اپنے بیٹے نورالدین محمود احمد کو بھی اس خدمت کے لیے تربیت دینے کا ارشاد فرمایا۔ اللہ کرے کہ یہ سعادت نسلاً بعد نسلٍ بھی جاری رہے (آمین) ۔ ایک تقریب کے موقع پر مَیں نے اپنے پوتے کو تندور سے روٹیاں لانے کا کام سپرد کر دیا۔ وہ ایک خادم کی نگرانی میں روٹی لے کر آتا تو مَیں اس سے روٹی لے کر حضور کی خدمت میں پیش کر دیتا۔ حضور نے جب یہ دیکھا تو ارشاد فرمایا کہ اس کو آگے تک آنے دوں۔ پھر حضور نے اس سے خود روٹی پکڑلی اور اس سے باتیں بھی کرتے رہے۔ الحمد للہ
ربوہ میں خاکسار اور بھائی صباح الدین صاحب اکثر حضور (حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ) کے گھر حضور کی والدہ حضرت باجی جان ناصرہ بیگم صاحبہ کو سلام کرنے کی غرض سے حاضر ہوا کرتے تھے۔حضرت باجی جان گرمیوں میں ہمیں آئس کریم اور شربت دیا کرتی تھیں اور سردیوں میں چائے اور بسکٹ وغیرہ سے ہماری خاطر کیا کرتی تھیں۔حضرت باجی جان پردہ کی بہت پابند تھیں مگر ہم دونوں بھائیوں سے پردہ نہیں کرتی تھیں ۔
حضور کے گھر کے سامنے والے میدان میں ہم کرکٹ کھیلا کرتے تھے ۔ دو ٹیمیں بن جایا کرتی تھیں ۔ایک ٹیم کے کیپٹن صاحبزادہ ڈاکٹرمرزا منور احمد صاحب اور دوسری ٹیم کے صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب ہوا کرتے تھے۔ مکرم میاں ادریس احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا اظہر احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب، مکرم سید امین احمد صاحب، ہم دونوں بھائی اور ہمارے تایا علیم الدین صاحب کے بیٹےاور محلّے کے دیگر خدام بھی کھیل میں شامل ہوتے تھے۔حضور ایدہ اللہ تعالیٰ اس وقت بہت چھوٹے تھے اور آپ گراؤنڈ کے باہر کھڑے ہو کر کھیل دیکھا کرتے تھے۔ کھیل ختم ہونے کے بعد ہم دونوں بھائی اور سید امین شاہ صاحب میاں ادریس احمد صاحب کے ساتھ اُن کے گھر جایا کرتے تھے۔ میاں ادریس صاحب چائے بنایا کرتے تھے جس کا نام ہم نے ٹانک رکھا ہوا تھا کیونکہ اس چائے میں زعفران اور ڈرائی فروٹ وغیرہ ڈال کر بنایا جاتا تھا۔ بڑے مزے کی چائے ہوا کرتی تھی۔ ہم دونوں بھائی حضرت باجی جان کو سلام کرنے کے بعد گھر واپس جاتے تھے۔ جب میرے والد صاحب کی 1962ء میں وفات ہو گئی تو مجھے کام کی غرض سے ربوہ چھوڑ کر لاہور جانا پڑا۔ پھر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب سے بہت کم ملاقات ہوتی تھی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے زمانے میں ایک بار حضرت مرزا مسرور احمد صاحب (ایدہ اللہ تعالیٰ) جب اپنے والد حضرت مرزا منصور احمد صاحب کے ساتھ لندن تشریف لائے تو حضرت میاں صاحب ٹانگوں کی تکلیف کی وجہ سے وھیل چیئر استعمال کرتے تھے اور حضورانور اپنے والد محترم کی وھیل چیئر کو خود دھکیلا کرتے تھے۔ تب تقریباً ہر روز ہی آپ سے ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔ ایک دفعہ میرا بیٹا نورالدین بھی میرے ساتھ تھا۔ اُس وقت اس کی عمر سات سال تھی اور اس نے نظر کی عینک لگا ئی ہوئی تھی۔ حضرت مرزا منصور احمد صاحب نے بڑی محبت سے میرے بیٹے کو گود میں بٹھالیا اور حیرت سے مجھ سے دریافت کیا کہ اس کی نظر اتنی کمزور ہے!مَیں نے اثبات میں جواب دیا اور دعا کی درخواست بھی کی تو حضرت میاں صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ انگوٹھی اپنی انگلی سے اتاری جس پر ’’مولیٰ بس‘‘ کندہ ہے۔ پھر آپ نے وہ انگوٹھی عزیزم نورالدین کی آنکھوں پر لگاکر دعا کی۔ خداتعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ اس کے کچھ ہی عرصے بعد بیٹے کی نظر بالکل ٹھیک ہو گئی ۔ الحمد للہ۔ (نوٹ: یہ بابرکت انگوٹھی اس وقت حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دست مبارک کی زینت ہے۔)


حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے دورِ خلافت کے آخری سالوں میں خاکسار کے سپرد 65گیسٹ ہاؤس کی نگرانی تھی۔ جب صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب نے پڑھائی کی غرض سے لندن آنا تھا اور پروگرام تھا کہ آپ ہوسٹل میں رہائش رکھیں گے تو خاکسار نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی خدمت میں عرض کیا کہ نمبر 65 گیسٹ ہاؤس میں جگہ میسر ہے۔ اگر حضور اجازت دیں تو مرزا وقاص احمد صاحب کو یہاں ٹھہرا دیا جائے۔حضورؒ نے فرمایا: اچھا خیال ہے۔ اس پر خاکسار نے حضرت مرزا منصور احمد صاحب کو فون پر اس اجازت کی اطلاع دی۔ چنانچہ مرزا وقاص احمد صاحب لندن آکر گیسٹ ہاؤس میں مقیم ہوئے ۔
2009ء سے اب تک خاکسار کو تین بار انجائنا کی تکلیف کے حملے ہوئے ہیں۔ ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دل کافی Damageہو گیا ہے ۔حضور ایدہ اللہ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی گئی تو حضور کی دعا اور توجہ سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور معجزانہ طور پر صحت سے نوازا۔ حتّٰی کہ ابتدائی رپورٹس بھی ساری غلط ثابت ہوئیں، الحمدللہ۔ آخری بار تو سرجن آکر بیٹھ گیا اور پوچھنے لگا کہ تم کون سی دوائی کھاتے ہو؟ مَیں نے کہا کہ جو دوائی میں کھاتا ہوں اس پر تم یقین نہیں کروگے۔ اس نے پوچھا کہ وہ کیا ہے؟ مَیں نے کہا کہ وہ یہ ہے کہ مَیں اپنے روحانی باپ کی خدمت میں دعا کی درخواست کرتا ہوں اور اللہ تبارک تعالیٰ فضل فرمادیتا ہے اور مَیں ٹھیک ہو جاتا ہوں۔ وہ سمجھا کہ میں مذاق کر رہا ہوں ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں