محبوب و ہردلعزیز امام – حضرت مصلح موعودؓ
جماعت احمدیہ امریکہ کے دو ماہی ’’النور‘‘ جنوری وفروری 2006ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے بارہ میں ایک مضمون مکرم عبدالباسط شاہد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ ایک بہترین منتظم تھے۔ ہر اندرونی و بیرونی مخالفت میں بروقت کارروائی کرتے ہوئے جماعت کی بھرپور رہنمائی فرمائی۔ آپؓ کے مخالف اکثر آپؓ پر مذہبی آمر ہونے کا الزام شدّومد کے ساتھ لگاتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم کے اصول کے مطابق مذہبی آمر کو قبولیت کا درجہ حاصل نہیں ہوسکتا جبکہ جماعت کے ہر طبقہ کی قربانی اور فدائیت کا معیار اس الزام کی تردید کرتا ہے۔ جماعت کی تنظیم، انتخابات کا طریق اور شوریٰ کا نظام دنیا بھر میں ایسی اکلوتی مثال ہے کہ جہاں اظہار رائے کی مکمل آزادی بھی ہے مگر کوئی حزب مخالف اور حزب موافق کی تفریق بھی نہیں۔
ہم نے حضورؓ کو قادیان کی گلیوں میں وقارعمل کرتے بھی دیکھا ہے سنا ہے کہ کئی بار حضورؓ نے اوپر کسی مسند پر بیٹھنے کی بجائے عام احمدیوں کے درمیان بیٹھنا پسند فرمایا، سب کے ساتھ کھانا کھایا، کوئی قافلہ سے پیچھے رہ گیا تو اُس کے انتظار میں سارے قافلہ ے ساتھ انتظار فرماتے رہے، کبھی اُسے لینے کے لئے واپس بھی آئے۔ جماعت سے بے حد محبت کی اور مخالفوں کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’اگر اسلام میں خودکُشی حرام نہ ہوتی تو مَیں اسی وقت جماعت کے ایک سو نوجوانوں کو اپنے سامنے یہاں بلاتا اور انہیں اپنے آپ کو قتل کرنے کے لئے کہتا تو آپ دیکھتے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی تعمیل حکم میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا اظہار نہ کرتا‘‘۔ اس میں ہرگز کوئی مبالغہ نہ تھا کیونکہ وقف کی تحریک پر بیوہ ماؤں نے اکلوتے بیٹے پیش کردیئے، ہزاروں نوجوانوں نے زندگیاں وقف کرکے اپنے جذبات کی مسلسل قربانی پیش کرنے کو اپنی زندگیوں کا شعار بنالیا اور یہ اُس قربانی سے کسی طرح کم نہیں کہ کوئی شخص کسی وقتی جذباتی جوش میں اپنی جان قربان کردے۔
محترم محمد عبداللہ صاحب حضورؓ کی ہر احمدی سے محبت کی مثال یہ بیان کرتے ہیں کہ مارچ 1914ء میں خاکسار پٹیالہ میں تھا جب حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی وفات ہوئی۔ پٹیالہ جماعت کی طرف سے مجھے اور مولوی محمودالحسن صاحب کو قادیان بھجوایا گیا۔ ریل گاڑی میں بہت رش تھا۔ کسی نے مجھ پر اپنے بٹوے کی چوری کا الزام لگادیا۔ میں نے کہا کہ میری تلاشی لے لیں۔ لیکن اُس نے مجھے امرتسر پولیس کے حوالے کرکے اپنا سفر جاری رکھا۔ مولوی صاحب اکیلے قادیان پہنچے اور حضورؓ سے ساری داستان بیان کی۔ حضورؓ نے اُسی وقت اپنے مختارعام شیخ نور احمد صاحب کو بلاکر ہدایات دیں کہ فوراً بٹالہ سے ٹرین کے ذریعے امرتسر پہنچیں اور ٹرین نہ ملے تو تانگہ لے لیں۔ ضرورت پڑے تو ریلوے پولیس کے DSP سید عبدالحمید صاحب کو لاہور جاکر ملیں۔ چنانچہ وہ فوراً روانہ ہوئے اور پھر سید صاحب کو ہمراہ لے کر امرتسر پہنچے۔ انہوں نے مدعی کا پتہ کروایا اور پیغام بھجوایا کہ امرتسر آکر کیس کی پیروی کرے۔ اُس نے تعمیل سے انکار کیا اور اس طرح مجھے رہائی ملی۔ اسی طرح ایک دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ میری بیوی کے گلے میں خنازیر کی گلٹیاں تھیں جن کا آپریشن کروایا گیا لیکن دوبارہ نمودار ہوگئیں۔ حضرت امّ طاہر نے میری بیوی کو بتایا کہ حضورؓ اس مرض کا علاج کرتے ہیں۔ اس پر مَیں نے حضورؓ کی خدمت میں عرض کیا تو حضورؓ نے فرمایا کہ مَیں نے تو اس مرض کا علاج کبھی نہیں کیا۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضورؓ کی معمولی توجہ سے شفا ہوجائے گی۔ حضورؓ نے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ سے فرمایا کہ حضورؓ کو مجھے دروائی بھجوانے کے بارے میں یاد دلائیں۔ چنانچہ کچھ روز بعد ڈاک میں پارسل آیا جس میں حضورؓ نے ایک سفید رنگ کا پاؤڈر بھجوایا تھا۔ یہ حسب ہدایت استعمال کیا گیا تو اللہ کے فضل سے گلٹیاں غائب ہوگئیں اور پھر کبھی نہیں اُبھریں۔
حضورؓ ایک بار مسجد احمدیہ بیرون دہلی دروازہ تشریف لائے۔ کثیر تعداد میں احباب جمع تھے۔ ایک کرسی حضورؓ کے لئے رکھی گئی تھی لیکن حضورؓ فرش پر سب کے ہمراہ بیٹھ گئے۔ جب عرض کی گئی کہ حضورؓ اگر کرسی پر تشریف رکھیں تو لوگ زیارت بھی کرلیں گے، اس پر حضورؓ کرسی کے ساتھ کھڑے ہوگئے لیکن تشریف فرما نہ ہوئے۔
حضورؓ جب چودھری فتح محمد صاحب ایم۔اے کی دعوت ولیمہ میں شمولیت کے لئے تشریف لائے تو معززین کے لئے لکڑیوں کے تخت بنائے گئے تھے اور دیگر اصحاب کے لئے فرش کیا گیا تھا۔ لیکن حضورؓ نے فرش پر بیٹھنا پسند کیا اور فرمایا کہ اَور دوست نیچے بیٹھیں تو مَیں اوپر کس طرح بیٹھ سکتا ہوں۔
حضرت مہر آپاؒ نے بیان کیا کہ گرمیوں کی ایک رات جب ربوہ میں ابھی بجلی نہیں آئی تھی، حضورؓ صحن میں لیٹے لالٹین کی روشنی میں ایک کتاب پڑھ رہے تھے کہ دروازہ پر دستک ہوئی۔ حضورؓ کے فرمانے پر مَیں نے جاکر دریافت کیا اور واپس آکر بتایا کہ ایک عورت کہتی ہے کہ میرے خاوند کو حضورؓ نے دوائی دی تھی، اس سے بہت افاقہ ہوگیا تھا مگر طبیعت پھر خراب ہوگئی ہے اور دوائی لینے آئی ہوں۔ حضورؓ نے فرمایا کہ کمرہ میں فلاں الماری کے فلاں خانے سے دوائی نکال لاؤ۔ مجھے گرمی بہت محسوس ہوتی ہے اس لئے کہہ بیٹھی کہ مَیں اُسے کہتی ہوں کہ صبح آجائے، اندر جاکر تو حبس سے میرا سانس نکل جائے گا۔ اس پر حضورؓ نے بڑے جلال سے فرمایا: ’’تم اس اعزاز کو جو خدا نے مجھے دیا ہے، چھیننا چاہتی ہو! ایک غرض مند میرے پاس اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے آتا ہے، یہ خدا کی دی ہوئی عزت ہے کہ مجھے خدمت کا موقع ملتا ہے، اُسے مَیں ضائع کردوں تو قیامت کے دن خدا کو کیا شکل دکھاؤں گا، مَیں خود جاتا ہوں۔ مَیں نے کہا کہ مَیں چلی جاتی ہوں۔ لیکن حضورؓ نہ مانے اور دوائی لاکر اُسے دی اور ہدایت کی کہ صبح آکر اپنے خاوند کی خیریت کی خبر دے۔
حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ بڑے بڑے حضور کے عاشق ہیں جو رات دن دعائیں ہی کرتے رہتے ہیں۔ اس غیرمعمولی محبت اور عشق کی وجہ یہی ہے کہ حضور بھی جماعت کے لئے نہایت درد دل سے دعائیں کرتے ہیں۔ انہی دعاؤں کا عکس جماعت کے احباب کے دلوں پر پڑتا ہے اور وہ بھی حضورؓ کے لئے دعا کرتے ہیں۔