محترمہ امتہ الحفیظ قمر صاحبہ

ماہنامہ ’’مصباح‘‘ اپریل 2005ء میں مکرم مولانا بشیر احمد قمر صاحب کے قلم سے اُن کی اہلیہ محترمہ امۃالحفیظ قمر صاحبہ کا ذکر خیر شامل اشاعت ہے۔

مولانا بشیر احمد قمر صاحب

میری اہلیہ مرحومہ امتہ الحفیظ حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانیؓ کی نواسی تھیں جن کو حضرت مسیح موعودؑ نے معہ اہل بیت 313؍اصحاب میں شامل فرمایا ہے اور اُن کے اسماء اپنی کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں درج کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہ تمام اصحاب خصلت ِصدق و صفا رکھتے ہیں اور حسب مراتب جس کو اللہ بہتر جانتاہے بعض بعض سے محبت اور انقطاع الی اللہ اور سرگرمیٔ دین میں سبقت لے گئے ہیں‘‘۔
حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؒ خالداحمدیت آپ کے حقیقی ماموں تھے۔ میرے خسر صاحب کا نام خواجہ محمد حسین صاحب اور خوشدامن صاحبہ کا نام رمضان بی بی صاحبہ تھا۔ دونوں بہت نیک ، تہجد گزار اوردعاگو وجود تھے۔ دونوں موصی تھے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔
میری شادی ایسے حالات میں ہوئی کہ میں جامعۃالمبشرین میں شاہد کے آخری سال کا طالبعلم تھا۔ کشمیر سے 1948؁ء میں ترک سکونت کرکے ہم پاکستان آئے تھے۔ والدین فوت ہو چکے تھے۔ ایک بہت چھوٹی بہن حمیدہ بیگم چند سال کی میرے ساتھ تھی۔ جامعہ کے زمانہ میںایک اَور عزیز یتیم و لاوارث جو رشتہ میں میرا بھانجا ہے وہ بھی میرے ساتھ آ ملا۔ اس مختصروظیفہ پر (جو چالیس روپے ماہوار ملتاتھا) اورجو صرف ایک طالبعلم کے گزارا کے لئے تھاہم تین اس پر گزارہ کرتے تھے۔ خود کھانا پکاتا تھا۔ حضر ت مولانا ابوالعطاء صاحبؒ (پرنسپل جامعہ احمدیہ) نے احمد نگرمیں جامعہ کا ایک کمرہ مجھے دیا ہوا تھا۔ اسی میں ہم سوتے اور اسی میں کھانا پکاتے تھے۔ ایسے حالات میں میری ساس اور سسر نے بغیر کسی واقفیت یا راہ ورسم، تحریک و اشارہ کے اپنی لڑکی کا رشتہ مجھے دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مجھے یقین نہیں آتا تھا اس لئے اپنے حالات بتا کر معذرت کی لیکن میرے سسرال کے اصرار پر یہ رشتہ طے پاگیا اور 2؍جنوری 1956ء کو رخصتانہ ہوا۔
میرے ایک ماموں نے ساٹھ روپے بھیجے کہ سنا ہے تو شادی کر رہا ہے یہ میں قرضہ کے طورپر بھیج رہا ہوں کوئی چھوٹی موٹی چیز کم از کم ایک آدھ جوڑا کپڑوں کا لڑکی کے لئے بنوا لینا۔ لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کیا کروں۔ تب میں نے اپنی ساس کو بلاکر یہ روپے دے کر کہا کہ میری طرف سے لڑکی کے لئے کوئی چیز بنا لیں۔ لیکن و ہ مُصر تھیں کہ کسی چیزکی ضرورت نہیں اور نہ میں یہ رقم لیتی ہوں۔ بالآخر انہوں نے تیس روپے لئے اور رخصتانہ کے بعد وہ بھی واپس کر دئے اور بتایا کہ وہ روپے اس لئے لئے تھے کیونکہ اُن کی بڑی لڑکی نے خواب میں دیکھا کہ کسی ایسے لڑکے سے امتہ الحفیظ کی شادی ہو رہی ہے جس کا نام بشیر ہے اوروہ آپ کو تیس روپے دیتا ہے۔
امتہ الحفیظ کی شادی کے ساتھ ان کی چھوٹی ہمشیرہ کی بھی شادی تھی۔ وہ پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے۔ جب مہمان مستورات نے مطالبہ کیا کہ ہمیں لڑکوں کی بَری دکھائی جائے۔ میں تو خالی ہاتھ گیا تھا۔ سویٹر تک نہیں تھا حالانکہ اس دن شدید سردی تھی۔ میر ی ساس صاحبہ نے بڑی جرأت سے کہاکہ اس کی کیا ضرورت ہے، یہ ان کی چیز ہے گھر جا کر دیکھ لیں گے۔ بہرحال وقت ٹل گیا۔ لیکن جب لڑکیاں مکلاوہ پر آئیں تو چھوٹی بہن کے پاس اپنے سسرال والوں کی طرف سے ہر چیز تھی۔ بعض عورتوں نے میری بیوی کو چڑانے کے لئے کہنا شروع کیا کہ تجھ پر زیادتی ہوئی ہے۔ تجھے مفت میں دیدیا گیا ہے۔ اس موقعہ پر میری بیوی نے سادگی اور اعتماد سے یہی جواب دیا کہ میں بڑے سکون اور مزے کی نیند سوتی ہوں، مجھے نہ کسی ڈاکو کا خطرہ ہے نہ چور کا خوف ، نہ جان کا اندیشہ۔ جبکہ اِس کو ہروقت دھڑکا رہتاہے کہ ٹوٹ نہ جائے، گم نہ ہوجائے، کسی چورکی نظر نہ پڑ جائے۔ ہاں یہ فائدہ ہو سکتاہے کہ بوقت ضرورت گھروالے اس سے واپس لے کر اپنی کسی ضرورت کو پوراکرسکتے ہیں اور یہ بھی اس کے لئے ایک حسرت ہوگی، اس وقت کہے گی بہتر تھا نہ دیتے۔ میری اہلیہ مرحومہ کی پرائمری تک تعلیم تھی لیکن سوچ اچھی تھی اوراس نے یہی روح اپنی بیٹیوں میں بھی پیدا کی۔
ان دنوں مجھے گزارہ الاؤنس 40 روپے ماہوار ملتے تھے۔ ہم چار افراد تھے۔ چنانچہ دکانداروں کے ہاں ہمارے کھاتے کھلے ہوئے تھے۔ سارا ماہ ہر قسم کے سودے ادھار چلتے حتی کہ سبزی تک۔ شادی کے چند دن بعد میری بیوی نے مشورہ دیاکہ سودا ادھار لینا بند کردیاجائے کیونکہ اس طرح بعض دفعہ غیرضروری چیز بھی لے لیتے ہیں۔ پھربعض دفعہ دکاندار پر بھی بدظنی اور شکوہ کرنے کا موقع پیدا ہو سکتا ہے۔ چنانچہ پھر ساری عمر اس کی پابندی کی اور بہت فائدہ اٹھایا۔
شا دی کے بعد جامعہ میں مو سم گرما کی چھٹیوں میں ہم نے قا دیان کی زیا رت کا پرو گرام بنایا۔ان کے بڑے بھائی احمد حسین صاحب بٹ در ویش ہیں۔ پاسپورٹ اور ویزا بن گیا، لاہور پہنچے تو ان کو پیچش کی تکلیف ہو گئی۔ چھ سات ما ہ کا حمل تھا۔ہمیں مشورہ دیا گیا کہ اس حال میں سفر نہ کریں لیکن یہ بڑے اعتماد سے مصر تھیں کہ ضرور جائیں گے۔ چنانچہ گئے اور دو ہفتے تک مقدس مقامات پر دعاؤں کی تو فیق ملی۔
اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے سات بچے عطا فرمائے۔ چار لڑکیاں اور تین لڑکے۔ بڑابیٹا عزیزم نصیر احمد صاحب قمر (مدیراعلیٰ الفضل انٹرنیشنل و ایڈیشنل وکیل الاشاعت لندن) واقف زندگی ہیں۔ ایک بیٹا ناصر احمد قمر حافظ قرآن ہے اور جرمنی میں ہے۔ ایک بیٹا عزیز م مظفر احمد قمر (کارکن صدرانجمن احمدیہ ربوہ) مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کی عاملہ میں مہتمم ہے۔

مولانا نصیر احمد قمر صاحب

جب بچے سکول جا تے تو دو سرے بچوں کی طرح ماں سے جیب خرچ کا مطالبہ کرتے۔ لیکن آپ نے کبھی بھی ان کو پیسے نہ دیئے سوائے سکول کی فیس کے۔ البتہ ان کے چندہ جات مجالس اور تحریک ِ جدید اور وقفِ جدید حسب تو فیق ادا کرتیں۔ گھر کا سودا خود خریدتیں اور بڑی محنت کرکے اچھی اور سستی چیز تلاش کرتیں۔
مجھے انہوں نے چار بار بیرونی ممالک کے لئے رخصت کیا۔ ایک دفعہ غانا میں خشک سالی اور قحط کا زمانہ تھا تو پاکستان سے وہاں جانے والوں کے ہاتھ چائے کی پتّی اور خشک دودھ تک بھیجا لیکن مجھ سے کبھی کسی چیز کی خواہش کی نہ مطالبہ۔ واپس آنے پر کبھی میرا سامان کھول کرتلاشی نہیں لی کہ کیا لائے ہیں۔ عورتیں آکر پوچھتیں کہ کیا لائے ہیں تو جواب دیتیں کہ یہ کوئی دنیا کمانے گئے تھے، الحمدللہ خیریت سے واپس آ گئے ہیں۔ بس یہی ہمارے لئے کافی ہے۔ اور یہی حال بچوں کا تھا۔
میں غانا میں تھا۔ کا فی عر صہ ہوا کہ گھر سے کو ئی خط نہیں آیا۔ میں نے خواب میں پریشان کُن خواب دیکھا تو بیداری پربہت تشویش ہوئی۔میں نے ان کے بھائی کو یہ خواب لکھا تو انھوں نے جواباً لکھا کہ آپ کا خواب سچا ہے۔ یہ کافی عر صہ سے ہا تھ پاؤں پک جانے کی تکلیف میں مبتلا ہیں اس لئے خط نہیں لکھ سکیں اور نہ ہی کسی اَور کو اپنی حالت کے بارہ میں لکھنے دیا کہ وہ پریشان ہوں گے۔ اسی طرح ایک بیٹا ٹائیفائڈ سے بیمار ہوکر ہسپتال میں داخل رہا اور ایک بچے پر دودھ گرجانے سے پریشانی اٹھاتی رہیں لیکن مجھے نہ لکھا کہ پردیس میں پریشانی نہ ہو۔
دیہات میں جما عتوں میں آسانی سے اور زیادہ تر تربیتی دورروں کے لئے مجھے سا ئیکل کی ضرورت تھی لیکن خریدنا مشکل تھا۔ انھوں نے اپنے کا نٹے جو شادی کے موقع پر وا لدین نے تحفہ دئیے تھے فروخت کرکے مجھے سا ئیکل خریدنے کے لئے رقم دی اور پھر اپنے اخرا جا ت سے پیسے بچا کر کچھ عرصہ کے بعد کا نٹے بنائے۔
1987ء میں جب مَیں غانا سے واپس آیا اور دوسرے دن دفتر تبشیر میں حاضر ہوا تو اطلاع ملی کہ میری تقرری طوالوؔ میں کر دی گئی ہے۔ کہا گیا کہ آپ دو تین ماہ کی چھٹیوں میں ضروری کام کاج سے فارغ ہو کر تیار ہو جائیں۔ میں نے گھرآ کر یہ خبر سنائی تو وہ خلاف معمول ادا س ہوگئیں۔ میں نے پوچھا کیا بات ہے۔ کہنے لگیں میرے کچھ مسائل ہیں وہ حل کرکے چلے جائیں۔ آ پ کو روکنے کاتومجھے کوئی حق نہیں۔میں نے پوچھا وہ کیا مسائل ہیں ؟ کہنے لگیں یہ جوان لڑکیاں ہیں ان کے رشتے کرکے چلے جائیں ، ان کی وجہ سے میں فکرمند ہوں۔ طوالو کا انٹری پرمٹ آ چکا تھا کہ اچانک اس سفر میں ایک قانونی روک پیدا ہو گئی۔ پاکستانی پاسپورٹ میں طوالو کا اندراج نہ تھا۔ میں نے مکرم وکیل التبشیر صاحب سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے ا س اندراج کے لئے کارروائی شروع کردی لیکن یہ ممکن نہ ہوا حتی کہ اڑھائی سال گزر گئے۔ اسی دوران بڑی بیٹی کی شادی ہوگئی اور ایک ہی دن دو رجسٹرڈ خطوط ملے جن میں دوسری دونوں لڑکیوں کے رشتہ کی خواہش کی گئی تھی۔ ایک طالبعلم تھا اور دوسرا معمولی ملازمت کرتا تھا۔ امتہ الحفیظ نے بلا تردد اور بلا توقف مجھے یہ مشورہ دیا کہ منظوری کاخط لکھ دیں۔ خط لکھ دیئے گئے تو کچھ دن بعد چھوٹی لڑکی کے رخصتانہ کا مطالبہ ہوا جبکہ بڑی لڑکی کے متعلق لڑکے والوں کو مزید وقت چاہئے تھا۔ اس مطالبے پرکسی کو شرح صد ر نہ تھا کہ بڑی کی موجودگی میں چھوٹی کو رخصت کر دیں۔ لیکن امتہ الحفیظ نے مشورہ دیا کہ ہر ایک کی مجبوریاں ہیں آپ ان کو لکھ دیں کہ آپ رخصتانہ کی تیاری کریں۔ بہرحال نہایت سادگی سے اس کا رخصتانہ ہوگیا اورکچھ عرصہ کے بعد ایک لڑکے کی بھی شادی ہوگئی۔ اس کے دو ماہ بعد بڑی لڑکی کے سسرال نے غیرمتوقع طور پر رخصتانہ کی خواہش کردی تو کئی عزیزوں نے کہا کہ اگر رخصتانہ کرنا تھا تو چند ہفتے پہلے کرلیتے تا دونوں بہن بھائی کا اکٹھا ایک ہی روز شادی اور رخصتانہ ہو جاتا اس طرح خرچ بچ سکتا تھا۔ لیکن میری اہلیہ محترمہ نے بغیر کسی تذبذب اور ناراضگی کے کہا کہ یہ ان کی اپنی مجبوریاں ہوں گی اس بحث کو چھوڑیں۔ آ پ ا ن کواطلاع دیدیں کہ ہم لڑکی کورخصت کرنے کے لئے تیارہیں۔
جب میری اہلیہ کے سارے مسائل حل ہوگئے تو اسی دوران حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی طرف سے طوالو کی بجائے میر ی تقرری جزائر فجی میں کردی گئی۔ دو تین ماہ بعد خاکسار فجی چلا گیا اور میرے جانے کے چھ ماہ بعد وہ اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ وہ اپنے مسائل اتنی جلدی سے طے کروا رہی تھیں یوں معلوم ہوتا تھا کہ علم الٰہی میں ان کی واپسی قریب آرہی تھی اور وہ میری ذمہ داریوں کو اپنی زندگی میں ہلکا کرنا چاہتی تھیں۔
بڑے لڑکے نے جب اچھے نمبروں پر میٹرک پاس کیا تو رشتہ داروں اور دوستوں نے اس کو اعلیٰ تعلیم کے لئے کالج میں داخل کروانے کا مشورہ دیا تاکہ چھوٹے بہن بھائیوں کے لئے سہارا بن جائے لیکن بیٹے کا ارادہ وقف زندگی کرنے کا تھا۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں مشورہ کے لئے لکھا تو حضورؒ نے فرمایا کہ اگروقف ہے تو جامعہ میں جائے ہمیں ذہین بچوں کی بھی ضرورت ہے۔ اس پر وہ بہت خوش ہوئیں۔ جامعہ کی تعلیم سے فارغ ہو کر وہ جامعہ احمدیہ ربوہ میں استاد مقرر ہوئے پھر لندن چلے گئے لیکن کبھی اس خواہش کا اظہار نہیں کیا کہ وہ میری مالی مدد کرے یا کچھ دے بلکہ ہمیشہ اس کے لئے کچھ نہ کچھ بنواکر بھجواتی رہیں اور کہتیں کہ میرے لئے یہی کافی ہے کہ خدمت دین کے لئے قبول کیا گیا ہے۔ ان کی زندگی میں دو بیٹوں کی شادی ہوئی۔ ایک بہو ان کی بھتیجی ہے اور ایک میری۔ دونوں سے بہت پیارکیا۔ اب وہ ان کے پیار کو یاد کر کے روتی ہیں۔
ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ اگرکوئی جماعتی یاانتظامی فیصلہ ہو جو بظاہر ان کے مفاد میں نہیں ہے تو اس کے خلاف نہ کوئی بات کرتی تھیں نہ کسی کی ہاں میں ہاں ملاکراس کی تائید کرتی تھیں۔ 1974ء میں خاکسار سرگودھا کا مربی ضلع تھا۔ جب احمدیوں کے خلاف فسادات پھوٹ پڑے تو خاکسار نے اپنے بچے ربوہ ایک عزیز کے پاس منتقل کردئے۔ کچھ دنوں کے بعد ایک مکان کرایہ پر لیا گیا۔ پھر وہ بھی خالی کرنا پڑا۔ ایک اور کرایہ پر لیا۔ اسی دوران مجھے غانا بھجوا دیا گیا جبکہ بچوں کے لئے مستقل رہائش کا انتظام نہیں تھا لیکن انہوں نے میرے سفر میں کوئی عذر نہ کیا۔ بعد میں ان کو پھر مکان بدلنا پڑا۔ اس طرح جہاں اخراجات زیادہ اٹھتے رہے وہاں کچھ سامان، برتن اور کتابیں بھی ضائع ہوئیں لیکن انہوں نے کبھی شکوہ نہیں کیا اور نہ ہی مجھے پریشانی کا خط لکھا بلکہ ہمیشہ تسلی کا خط لکھتی رہیں۔ آخرکافی عرصہ کے بعد صدرانجمن کا کوارٹر مل گیا۔
اسی طرح جب میرے بیٹے نصیر احمد قمر کا رشتہ طے ہوگیا اور نکاح بھی حضرت صاحبزادہ مرز ا طاہر احمد صاحبؒ نے پڑھادیا تو اس وقت میری تقرری افریقہ کے لئے ہوگئی تھی۔ کئی عزیزوں نے کہا کہ حضورسے اجازت لے لیں تاکہ اپنی موجودگی میں شادی کرواکر جائیں۔ اگر حضورؒ سے درخواست کی جاتی توشاید روانگی میں دو چارماہ کی تاخیرہوجاتی۔ جب میری رائے پوچھی گئی تو میں نے روانگی میں تاخیر کرنے کو پسند نہ کیا۔ چنانچہ میری بیوی اور بچے خوشی سے حسب پروگرام میری روانگی میں روک نہ بنے اور نہ ہی اس خوشی کو بدمزگی میں بدلا۔
میری مرحومہ بیوی نے تین بیٹیوں کی شادیاں اپنی زندگی میں کیں۔ آخری بیٹی امۃالحئی کی شادی ان کی وفات کے تقریباً تین سال بعد طے پائی۔ اس کے معاملہ میں مَیں بہت فکرمند تھا۔ پہلی بچیوں کی تیاری کا مجھے کوئی علم نہیں۔ کیا دیا ، کیا تیاری کی۔ میرا خیال تھا کہ ہماری طرف سے بچیوں کو کانٹے اورانگوٹھی کا تحفہ دیا گیا ہے۔ میں نے عزیزہ امتہ الحئی کو کہا کہ میں آپ کو وہی زیور تحفہ دوں گا جو آپ کی بہنوں کو آپ کی امّی نے دیا تھا یعنی کانٹے اور انگوٹھی۔ اس پر امتہ الحئی نے کہا کہ ابوجان آپ نے میری کسی بہن کو کوئی زیور نہیں دیا اور میں بھی نہیں لوں گی۔ جب میں نے یہ سنا تو میری عجیب کیفیت تھی۔
مَیں نے مرحومہ کے لئے بہت دعائیں کیں۔ رات جب آنکھ کھلتی مَیں ان کی مغفرت کے لئے دعا کرتا رہا۔ صبح بہشتی مقبرہ جاکر ان کے اور ان کے والدین کے مزاروں پر بہت دعا کی کہ اتنی برداشت۔ حالانکہ ان باتوں پر یہ خوشی کے مواقع بعض دفعہ لڑائی جھگڑوں، بدمزگی اور غمی کا موجب بن جاتے ہیں لیکن نہ ماں نے اور نہ ہی ان کی بیٹیوں میں سے کسی نے گلہ شکوہ اور اپنی خواہش کا کبھی اشارہ تک بھی کیا اور نہ یہ دیکھا اور پوچھا کہ دوسری طرف سے کیا آیا ہے۔ اس کا کوئی اظہار نہیں نہ ہی ان سے کوئی مطالبہ کیا۔ بیشک انہوں نے اسی طرح کیا جس طرح کامل توکل سے ان کی والدہ نے ان کے ساتھ کیا تھا۔ ان کو بھی خداتعالیٰ نے زندگی میں بہت کچھ دیا اور ان کی اولاد پر خداتعالیٰ کے فضل ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے۔
امتہ الحفیظ کو قرآن کریم سے بہت پیار تھا۔ اکثر تلاوت قرآن کریم کرتیں اور پھراونچی آواز سے ترجمہ پڑھا کرتیں۔ کثرت تلاوت کی وجہ سے اتنی اہلیت تھی کہ اگر کوئی غلط پڑھتا تو بغیر دیکھے اس کی اصلاح کر دیا کرتی تھیں۔ بہت سے بچوں کو قرآن کریم پڑھایا جن میں غیرازجماعت بھی شامل ہیں۔ موصیہ ہونے کی وجہ سے انہیں علم تھا کہ ہر موصی سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کم از کم دو افراد کو ہر سال قرآن کریم مکمل کروائے۔ اس نیت سے گھر میں بچوں کو پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ جاری رہتا۔ بدوملہی میں ایک غیرازجماعت بالکل اَن پڑھ ہمسائی کو قرآن کریم پڑھایا۔ وفات سے پہلے بھی ایک خاتون کوجو کئی بچوں کی ماں ہے اس کو قرآن کریم سیکھنے کے لئے تیار کیا۔ دوسرے محلہ میں جا کر اس کو باقاعدہ پڑھایا کرتی تھیں۔ طبیعت خراب ہو ، موسم ناموافق ہو، آپ وقت نکال کر جاتیں۔ زندگی کے آخری سفر پر جانے سے قبل اُسے جلدی جلدی قرآن کریم ختم کروادیا۔ پھر آپ جلہن (ضلع حافظ آباد) میں ایک شادی میں شریک ہونے گئی تھیں کہ وہاں ہی 15مارچ 1991ء کو داعی ٔ اجل کو لبیک کہا۔
اللہ تعالیٰ ان کی اس محبت قرآن کوقبول فرمائے اور اپنی صفت عفو اور مغفرت کی چادر میں ان کو لپیٹ لے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں