محترمہ امۃالحفیظ صاحبہ
یکم نومبر 1999ء کے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ میں 21؍جولائی 1999ء کو منعقد ہونے والی اردو کلاس کی باتیں (مرتبہ: مکرم حافظ عبدالحلیم صاحب) شامل اشاعت ہیں۔ اس کلاس میں عزیزم مرزا توقیر احمد ابن مکرم مرزا نصیر احمد صاحب نے اپنی دادی جان محترمہ امۃالحفیظ صاحبہ بنت حضرت مولوی سید غلام محمد صاحبؓ کا تعارف کروایا ہے۔ آپ کا تعلق افغانستان سے تھا اور آپ محترم مرزا محمد حسین صاحب ابن حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب مصنف چٹھی مسیح کی اہلیہ تھیں۔ آپ کو چٹھی مسیح اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ نے دعوت الی اللہ کے جذبہ کے تحت ایک پنجابی نظم تحریر کی تھی جو دراصل غیراحمدیوں کی طرف سے حضرت عیسیٰ کو مخاطب کرکے ایک چٹھی کے طور پر لکھی گئی تھی کہ آپ کے دوبارہ آنے کی علامات پوری ہوچکی ہیں اس لئے جلد آسمان سے نازل ہوکر امّت کو گمراہ ہونے سے بچائیں۔ آپ نے یہ لمبی نظم 1903ء میں ایک روز مسجد مبارک قادیان میں حضرت مسیح موعودؑـ کی خدمت میں پڑھ کر سنائی تو حضور بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ مولوی صاحب! اب اس کا جواب بھی لکھیں۔ چنانچہ آپ نے ارشاد کی تعمیل میں جوابی نظم بھی لکھی اور حضور کے ارشاد پر دونوں نظموں کو شائع فرمادیا۔
محترمہ امۃالحفیظ صاحبہ پیدائشی احمدی تھیں۔ 1909ء میں افغانستان میں پیدا ہوئیں اور 1930ء میں اپنے والد محترم کے ہمراہ قادیان آئیں۔ کچھ عرصہ بعد جب آپ کے والد وفات پاگئے تو حضرت سیّدہ امّاں جانؓ نے آپ کو اپنے ہاں بلالیا جہاں آپ تین سال رہیں اوراُن کی صحبت سے بہت فیض پایا۔ آپ بہت نیک، دعاگو اور صاحب کشف خاتون تھیں۔ اکثر دعاؤں کی قبولیت کی آپ کو پہلے خبر دیدی جاتی تھی۔ جنگ عظیم دوم کے دوران آپ کے خاوند قادیان سے باہر تھے تو آپ کو اللہ تعالیٰ نے اُن کی بیماری کی اطلاع دی۔ آپ نے بہت دعا کی تو خواب میں بتایا گیا کہ آپ فکر نہ کریں، ابھی وہ تیس سال مزید آپ کے پاس رہیں گے۔ چنانچہ اس خواب کے مطابق وہ پورے تیس سال آپ کے پاس رہ کر فوت ہوئے۔
اسی طرح جب حضور انور 1984ء میں ربوہ سے لندن تشریف لا رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مطلع فرمادیا کہ حضور پاکستان سے باہر تشریف لے جا رہے ہیں جبکہ اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ حضور جہلم تشریف لے گئے ہیں۔
آپ کو خواب میں حضرت مصلح موعودؓ کے بعد آنے والے خلفاء بھی دکھائے گئے جن میں سے صرف دو کے نام یاد رہے۔ یعنی حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحبؒ اور حضرت امیرالمومنین مرزا طاہر احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز۔ چنانچہ آپ نے ان دونوں کا زمانہ پایا اور 1985ء میں وفات پاکر بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئیں۔
اس کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ : ’’ان کی دادی کا ایک واقعہ جو واقعہ بھی ہے اور لطیفہ بھی آپ کو سناتا ہوں۔ جب مَیں بظاہر پنڈی گیا ہوا تھا۔ اصل میں کراچی سے پھر ہوائی جہاز پر اڑنا تھا۔ ان کی دادی نے اس وقت رات خواب میں دیکھا کہ مَیں ایک شیشے کے کمرے میں بیٹھ کر اُڑ گیا ہوں۔ لطیفہ جو بہت مزے کا ہے وہ یہ کہ پھر صبح گولبازار میں پھریں اور سب میں یہ مشہور تھا کہ مَیں جہلم گیا ہوں یا راولپنڈی۔ یہ ہر ایک کو بتاتی تھیں، بالکل غلط ہے۔ وہ تو ہوائی جہاز میں بیٹھ کر لندن جا رہے ہیں۔ سب لوگ سمجھ رہے تھے کہ پتہ نہیں اس بے چاری کو کیا ہوگیا ہے۔ انہوں نے بھی نہیں چھوڑا۔ ایک ایک دوکان پہ مشہور کیا۔ اللہ کا فضل دیکھو کسی کو یقین نہیں آیا۔ ورنہ اس وقت اگر بات نکلتی تو دشمن کئی شرارتیں کر سکتا تھا۔ … بڑی دعاگو خدا تعالیٰ کی ہستی کا زندہ ثبوت تھیں۔‘‘