محترمہ امۃالرشید شوکت صاحبہ
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 14 اپریل 2025ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍فروری 2014ء میں مکرمہ الف ریحان صاحبہ نے اپنی ساس محترمہ امۃالرشید شوکت صاحبہ کا مختصر ذکرخیر کیا ہے۔
مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ مَیں اپنی شادی کے بعد چار سال ان کے ساتھ رہی لیکن محبت بھری یادیں بہت گہری اور خوبصورت ہیں۔ قدرت نے ایک درد آشنا دل دیا تھا۔ آپ کو شوگر تھی اور دائیں طرف فالج بھی ہوچکا تھا۔ چلنے پھرنے سے معذور تھیں لیکن ہر ایک کی خوشی غمی میں شریک ہوتیں۔
آپ کا جماعت سے بہت گہرا تعلق تھا۔ آپ تیس سال کوٹ ادّو میں رہیں اور سترہ سال وہاں صدر لجنہ کے طور پر فرائض سرانجام دیے۔ میرے سسر مکرم امان اللہ خان ظفر صاحب واپڈا کالونی میں ملازم تھے لیکن امی اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے کئی میل پیدل چل کر دیہات میں جایا کرتیں۔ اپنے خاوند کا بہت ادب کرتیں۔ دونوں میاں بیوی میں بہت پیار تھا۔ بوقت وفات آپ 37سال سے موصیہ تھیں۔ آپ کے چھ بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹا اٹھارہ سال کی عمر میں نہر میں ڈوب گیا اور تین دن بعد اُس کی نعش نکالی جاسکی۔ اسی طرح آخری عمر میں آپ کی ایک بیٹی بھی وفات پاگئیں۔ دونوں مواقع پر آپ نے بےحد صبر کا نمونہ دکھایا۔
مجھے اپنی شادی کے وقت کھانا بنانا نہیں آتا تھا جو آپ نے مجھے سکھایا۔ لڑائی جھگڑے اور جھوٹ سے سخت نفرت تھی۔ ہر عید پر مجھے اور میرے بچوں کو عیدی دیتیں۔ اگر مَیں کہتی کہ اپنی دوا کے لیے پیسے رکھ لیں تو کہتیں میری دوائیں اتنی ضروری نہیں ہیں۔ وفات سے ایک دن قبل مجھے بلاکر اپنے کانوں سے بالیاں اتار کر میرے کانوں میں ڈالنا چاہیں تو میرے انکار پر ناراض ہوگئیں اور کہا کہ مجھے اپنی امی نہیں سمجھتیں؟ کوئی بھی تھوڑی سی چیز بھی ہوتی تو مل بانٹ کر کھانا سکھاتیں اور کہتیں کہ اسی میں برکت ہے۔
ایک روز میرے سر میں درد تھا۔ آپ سے چلنا بھی مشکل تھا لیکن آپ میرے کمرے میں آئیں اور میرا سر دبانے لگیں۔ میرے بچے کی پیدائش پر کہا کہ گھر سے جاتے ہوئے صدقہ دو اور پھر ساری رات جاگ کر دعائیں کرتی رہیں۔