محترمہ امۃ اللہ خورشید صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍اپریل 2009ء میں محترمہ امۃاللہ خورشید صاحبہ کا ذکر خیر اُن کی بھانجی مکرمہ امۃالمصور سمیع صاحبہ کے قلم سے شائع ہوا ہے۔
حضرت مولانا ابوالعطاء جالندھری صاحبؓ کی پہلی بیگم محترمہ زینب بی بی صاحبہ آپ کے ماموں حضرت ڈاکٹر محمدابراہیم صاحبؓ آف سڑوعہ ضلع ہوشیارپور کی بیٹی تھیں۔ 7ستمبر 1920ء کو شادی کے وقت حضرت مولوی صاحب کی عمر 16سال اور اُن کی اہلیہ کی عمر 13سال تھی۔ صرف نو سال بعد جنوری 1930ء میں محترمہ زینب بی بی صاحبہ کی وفات ہوئی۔ آپ موصیہ تھیں اور قادیان کے بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئیں۔آپ بڑی صابرہ، شاکرہ اور پابند صوم و صلوٰۃ تھیں مالی قربانیوں میں بھی پیش پیش تھیں۔ آپ کے بطن سے تین بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوئے جن میں سب سے بڑی محترمہ امتہ اللہ صاحبہ تھیں جن کی شادی محترم حکیم خورشید احمد صاحب سے ہوئی۔ والدہ کی وفات کے وقت ان کی عمر ساڑھے تین سال تھی۔
محترمہ امۃاللہ صاحبہ کی ابتدائی تعلیم قادیان کے پاکیزہ ماحول میں ہوئی۔ آپ نے مڈل کے بعد مذہبی تعلیم کا چارسالہ کورس کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے ادیب عالم کا امتحان بھی پاس کیا۔ مجلس خدام الاحمدیہ کی طرف سے کتب حضرت مسیح موعودؑ کے امتحانات میں شریک ہوتیں اور 1944ء میں مردوں اور عورتوں میں اوّل آئیں۔ 1945ء میں لجنہ اماء اللہ مرکزیہ قادیان کی ایک رکن کی حیثیت سے باقاعدہ خدمت کا کام شروع کیا 1946ء میں آپ سیکرٹری تعلیم اور سیکرٹری اصلاح و ارشاد لجنہ اماء اللہ قادیان مقرر ہوئیں۔ جون 1947ء تا ستمبر 1960ء میں لجنہ مرکزیہ کے رسالہ ’’مصباح‘‘ کی پہلی خاتون مدیرہ کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔
اللہ تعالیٰ نے محترمہ کو تحریر و تقریر کا ملکہ بخشا تھا۔ مستورات کے جلسہ سالانہ میں اکثر ان کی تقریر رکھی جاتی تھی۔ پردہ کی سختی سے پابندی کرتی تھیں اور برقعہ ایسا پہنتیں کہ ہاتھ بھی نظر نہ آئیں۔ گرمیوں میں پردہ کی خاطر جرابیں پہن کر باہر جاتیں۔ کپڑوں کے بارہ میں اعلیٰ ذوق رکھتیں تھیں۔ گھر میں بھی اچھی طرح تیار ہو کر ہی رہتیں۔ ناراضگی یا غصہ آپ کا وقتی ہوتا۔ غیبت نہ کرتیں اور اگر کوئی کرتا تو فوراً منع کر دیتیں۔
آپ کو ذکر الٰہی اور عبادت سے خاص شغف تھا۔ نمازیں ہمیشہ وقت پر ادا کرتیں۔ سفر میں نماز کا خاص خیال رکھتیں۔ رمضان میں درس قرآن اور تراویح میں باقاعدگی سے شریک ہوتیں۔ دعائوں پر خاص ایمان اور اعتقاد تھا آپ کو سچی خوابیں آتیں جو جلد ہی پوری ہو جاتیں۔
آپ کی شادی 1945ء میں مکرم مولانا خورشید احمد شاد صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ سے ہوئی۔ مولانا صاحب 1943ء میں مولوی فاضل کے امتحان میں اوّل آئے تھے اور پھر اپنی زندگی وقف کر دی تھی اورحضور کے ارشاد کے ماتحت علم حدیث کی خاص تعلیم حاصل کرنے کے لئے دو سال تک لاہور اور دہلی کے علماء سے علم حدیث، فقہ اور منطق پڑھتے رہے تھے۔
محترمہ امۃاللہ صاحبہ کو شادی کے بعد بعض اوقات سخت مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر آپ نے بڑے حوصلہ اور صبر سے ان حالات کا مقابلہ کیا۔ آپ بہت ہمدرد اور وفادار بیوی تھیں۔ ہمیشہ گھر کی حقیقی خیرخواہ اور اچھی بات سوچتیں۔ آپ کی اولاد نہ تھی مگر اس کمی کو اپنی زندگی میں اثر انداز نہ ہونے دیا۔ ہمیشہ ایک یتیم بچے کی کفالت کرتیں۔
آپ نے آخری بیماری کے دوران بہت حوصلہ اور صبر سے کام لیا اور آخری دم تک دین کی خدمت کی۔ 1960ء میں حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب کو کراچی میں خواب کے ذریعہ بتایا گیا کہ امتہ اللہ خورشید صاحبہ آپریشن کے بعد وفات پاجائیں گی۔ اس پر مولوی صاحب نے بہت دعائیں کیں۔ مگر تقدیر اٹل تھی۔ اسی دوران محترمہ امۃاللہ خورشید صاحبہ نے مصباح میں اپنے آخری پیغام میں لکھا کہ اگر خدا نے مجھے صحت دی تو مَیں پہلے سے زیادہ دین کی خدمت کروں گی اور اگر یہ میرا آخری وقت ہے تو تمام بہنوں اور بھائیوں سے درخواست ہے کہ میرے لئے مغفرت کی دعا کریں اور سب کو میرا سلام پہنچا دیں۔ میں نے اپنی حد استطاعت کے مطابق مصباح کے ذریعہ خدمت دین کرنے میں اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں رکھی اور تکلیف اور علالت کے دوران بھی اس فرض سے غافل نہیں ہوئی۔
اگرچہ آپریشن بظاہر کامیاب ہوگیا مگر دو روز بعد 26ستمبر 1960ء کو آپ 37سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔ آپ 1/8 حصہ کی موصیہ تھی۔ 27ستمبر 1960ء کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی تدفین ہوئی۔
حضرت مولانا راجیکی صاحب نے آپ کے بارہ میں ایک فارسی نظم کہی۔ جس میں کہا:
’’ابوا لعطاء کی بیٹی جو دین کے چراغ کی مانند ہے اس کی وفات سے دل حسرت سے غمگین ہو گئے۔ … اس کی مثال ایک ایسی نیک بیٹی کی طرح ہے جو اختر صبح سے بہتر ہے سورج بھی اس کے مقابل پر کمتر معلوم ہوتا ہے۔ ہر چندکہ اس کے بطن سے کسی حکمت کے تحت اولاد نہیں ہوئی لیکن نتیجہ یہ ہے کہ اس کی طبع ذہین ہو گئی ہے۔ جو مصباح اس نے پیدا کیا ہے وہ سوبہنوں بلکہ صد ہزار بیٹوں سے بھی زیادہ قدر وقیمت والی ہے۔‘‘
حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب نے ایصال ثواب کے لئے بعض رشتہ داروں کے تعاون سے ’’امۃاللہ خورشید یادگاری فنڈ‘‘ قائم کیا۔ جس سے کئی بچوں کو تعلیمی وظائف دیئے جاتے رہے اور طبقہ نسواں کے لئے مفید لٹریچر شائع ہوتا رہا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں