محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍اکتوبر 2006ء میں مکرمہ ش متین سجاد صاحبہ اپنی ممانی محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم مولانا نذیر احمد مبشر صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ہماری ممانی جان حضرت بھائی محمود احمد صاحب کی پہلوٹھی اولاد تھیں۔ آپ 1914ء میں پیدا ہوئیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے آپ کا نام رکھا۔ سب بہن بھائیوں میں بڑا ہونے کی وجہ سے ان کو ہر کوئی آپا جان کے نام سے پکارتا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے ساتھ آپ کا نہایت ادب کا رشتہ تھا وہ بھی آپ کو آپا جان کہا کرتے تھے۔ خاندان حضرت مسیح موعود کے ساتھ بھی خاص تعلق تھا۔ آپ کی تربیت چونکہ خاص دینی ماحول میںہوئی تھی اس لئے علم وفضل میں بھی نمایاں تھیں۔
والدین کے گھر نہایت خوشحالی دیکھی۔ اللہ تعالیٰ نے ذہن خوب عطا کیا تھا چنانچہ باقاعدہ سکول نہ جاسکنے کے باوجود پہلے گھر میں اور پھر قادیان کے دینیات سکول میں تعلیم حاصل کی اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان امتیازی نمبروں میں پاس کیا اور خداتعالیٰ کے فضل و کرم سے یونیورسٹی میں دوئم رہیں۔ عربی زبان کی خوب سمجھ تھی۔ نہ صرف دینی علم بلکہ ادب سے بھی لگائو تھا۔ نعت اور اردو میں نظمیں بھی کہیں۔ مطالعہ کی عادت تھی۔ حضرت مسیح موعود کی کتب اور جماعت کے رسائل و جرائد کا مطالعہ باقاعدگی سے کرتیں۔ جماعتی اجلاسات میں شامل ہونا آپ کا معمول تھا۔ خدمت خلق میں پیش پیش تھیں۔ ہمسایوں کا خیال اور خبر گیری اپنا فرض سمجھتیں۔
جب آپ کا نکاح ہوا تو ماموں (حضرت مولانا نذیر احمد مبشر صاحب) وقف کرکے مغربی افریقہ چلے گئے۔ ان دنوں جماعت کی مالی حالت بہت کمزور تھی۔ وہ تقریباً 18برس بعد وطن لوٹے اس حال میں کہ جوانی کا زمانہ گزر گیا تھا۔ پھر تقریباً ایک برس بعد شادی ہوئی۔ شادی کے بعد بڑا بیٹا پیدا ہوا۔ تقریباً ڈیڑھ برس کا قلیل عرصہ ہی ساتھ رہے تھے کہ ماموں کو دوبارہ افریقہ بھجوادیا گیا۔ اُن کی عدم موجودگی میں بچی پیدا ہوئی جو چند ماہ بعد وفات پاگئی۔ ممانی جان نے نہایت صبر سے اس صدمے کو برداشت کیا پھر ایک لمبے عرصہ کے بعد ماموں دوبارہ تشریف لائے تو خدا نے آپ کو ایک اور بیٹے سے نوازا۔ دونوں بیٹے بفضل خدا دونوں ہی قابل ڈاکٹر ہیں۔
آپ کی سیرت کا نمایاں پہلو عبادت اور خداتعالیٰ سے خاص تعلق تھا۔ آپ مستجاب الدعوات تھیں۔ آپ زاہدہ اور عابدہ خاتون تھیں۔ صاحب الہام اور صاحب کشف تھیں۔ آپ صوم و صلوٰۃ کی پابند تو تہجدگزار تھیں۔ قرآن پاک کی باقاعدگی سے تلاوت کرنا اور اس پر غور و فکر کرنا ان کا روز کا معمول تھا۔ آپ میں اتنا سلیقہ تھا ہر قسم کی مٹھائی خود گھر میں بنانے کی مہارت تھی۔ بہت لذیذ کھانا بناتیں۔ قرینہ بھی کمال کا تھا۔ اتنی تھوڑی سی تنخواہ میں بھی بچت کرلیتی تھیں۔ کفایت شعاری اور حکمت عملی نے ان کا گھر جنت بنائے رکھا۔
گھانا میں چند سال رہیں تو وہاں کے سینکڑوں افریقی بچوں، بچیوں اور خواتین کو قرآن کریم پڑھایا اور علم کی طرف ان کو راغب کیا۔ اس کے علاوہ سینکڑوں خواتین کو سلائی کا ہنر سکھایا ان کی وجہ سے بہت سی خواتین کو روزی ملی۔ افریقہ کے لوگوں سے تعلق پیدا کرنے کے لئے انگریزی سیکھی۔ خود معمولی تنخواہ میں بھی نہایت صبر سے گزارہ کیا۔ کبھی ناشکری کے الفاظ ان کے منہ پر نہ آئے۔ 19جولائی 2006ء کو آپ کی وفات ہوئی۔