محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ
محترم مولانا محمد منور صاحب سابق مربی مشرقی افریقہ نے اپنی اہلیہ محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ کی یاد پر مشتمل ایک کتابچہ تحریر فرمایا جس کی تلخیص (مکرم انتصار نذر صاحب کے قلم سے) روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍جون 2001ء کی زینت ہے۔
محترم مولانا صاحب بیان فرماتے ہیں کہ میری پہلی شادی 1940ء میں ہوئی۔ ہمارے گھر کا ماحول نہایت خوشگوار رہا۔ 1952ء میں دوسری شادی ہوئی ۔ اس کے بعد بھی زندگی پرسکون رہی۔ 1992ء میں پہلی بیوی محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ کی وفات ہوئی۔ وہ میری زوجیت میں 52 سال تک رہیں اور اس دوران 26 سال تک مجھ سے دُور رہیں۔ اس دوران کبھی شکایت زبان پر نہ لائیں۔
میری پیدائش کے بعد سے میرے لئے بہت سے رشتے آئے جن سے پہلے میرے بزرگ اور بعد میں مَیں انکار کرتا رہا۔ جون 1939ء میں مَیں قادیان آیا ۔ جب تعطیلات گزارنے واپس لودھراں گیا تو محترم منشی محمد حیات خانصاحب انسپکٹر بیت المال وہاں تشریف لائے اور اپنی بیٹی کے لئے میرے رشتہ کی خواہش کی۔ میرے والد صاحب نے کہا کہ تین سال قبل چھوٹے بھائی کے ہاں پیدا ہونے والی بیٹی سے اُن کے والد صاحب(یعنی میرے دادا) میری بات طے کرچکے ہیں اس لئے آپ اُن سے ذکر کردیکھیں۔ چنانچہ خانصاحب نے اُن سے ذکر کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ رشتہ تو طے ہوچکا ہے لیکن بچوں کی عمر میں کافی فرق ہے۔ اگر آپ جلدی یہ کام کرسکتے ہوں تو کوئی حرج نہیں جب بچی بڑی ہوجائے گی تو اُس کا رشتہ بھی وہیں ہوجائے گا۔ چنانچہ اُسی سال جلسہ سالانہ کے موقع پر اباجان نے ایک مکان کرایہ پر لے لیا۔ محترم خانصاحب بھی اپنی بیٹی کو قادیان لے آئے۔ 25؍دسمبر 1940ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے ہمارا نکاح پڑھا اور 29؍دسمبر کو رخصتانہ کی تقریب عمل میں آئی۔ اباجان نے خانصاحب سے پوچھا کہ کتنے افراد بارات میں آئیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ بیٹی تو مَیں نے ایک ہی کو دینی ہے، آپ جتنے افراد شامل کرنا پسند کریں، کرلیں۔ بارات میں چند افراد شامل تھے۔
جلسہ کے بعد مَیں جامعہ میں لَوٹ آیا اور میرے والدین اپنی بہو کو لودھراں لے گئے۔ اگلے سال ایک مکان اباجان نے قادیان میں خرید لیا جس کا ایک حصہ کرایہ پر دیدیا گیا۔ میری والدہ اپنی بھانجی کو تعلیم دلانے کے لئے اپنے ہمراہ لے کر قادیان آگئیں ۔ اُس بچی نے بعد میں میری بیوی بننا تھا۔ میری پہلی بیوی ہم سب کی خدمت میں مصروف ہوگئیں۔ اگلے سال مَیں نے درجہ ثانیہ (مولوی فاضل) کا امتحان دیا تو اپنی جماعت میں اوّل اور یونیورسٹی میں سوم آیا۔ میری بیوی نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ کو یہ پوزیشن میری وجہ سے ملی ہے۔ مجھے اس سے اختلاف کرنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی اور اُن کی بات مان لی گئی۔
مولوی فاضل کرنے کے بعد مَیں نے بیوی کے مشورہ سے زندگی وقف کردی اور مربیان کی کلاس میں داخلہ لے لیا۔ دس روپے الاؤنس مقرر ہوا تو خوشی کی انتہا نہ رہی کہ وقف بھی منظور اور ساتھ روپے بھی!۔مربیان کی دو سالہ کلاس کے بعد ایک سال کا خصوصی کورس کیا اور 1946ء میں کانپور میں بطور مربی متعین ہوا۔
1950ء میں اباجان نے لکھا کہ میرے چچا نے لکھا ہے کہ اُن کی بیٹی شادی کے قابل ہوگئی ہے اس لئے نکاح کردیا جائے۔ مَیں نے عرض کیا کہ مَیں واقف زندگی ہوں، اپنے بارہ میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا اور پھر دوسری شادی کی حاجت نہیں ہے، بیوی و بچہ موجود ہیں۔ چنانچہ معاملہ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں پیش ہوا۔ حضورؓ نے رشتہ کرنے کی اجازت اس شرط کے ساتھ دی کہ دونوں بیویوں کو افریقہ بھیجنا ہوگا۔
میری غیرحاضری میں میری بیویوں کا باہم معاملہ غیرمعمولی طور پر قابل تعریف رہا۔ کبھی جھگڑے کی نوبت نہ آئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میری بیویاں بھی خود کو عملاً وقف کرچکی تھیں۔ بعض ناواقف عورتیں میری دوسری بیوی کو پہلی بیوی کی بیٹی سمجھتی تھیں۔ اگرچہ عورت خاوند کی محبت میں کسی شراکت کو ناپسند کرتی ہے لیکن آمنہ بیگم کہتی تھیں کہ جب شریعت نے تعدد ازدواج کی گنجائش رکھی ہے اور حضورؓ نے بھی آپ کو دوسری شادی کی اجازت دیدی ہے تو مَیں اسے ناپسند کیسے کرسکتی ہوں؟۔ آمنہ بیگم میں محبت کے ساتھ ادب کا مادہ بھی انتہاء کو پہنچا ہوا تھا۔ باون سال میں کبھی ایسے الفاظ استعمال نہیں کئے جن میں کسی قسم کی درشتی یا ہتک پائی جائے۔
آمنہ بیگم کا سلوک غریب عورتوں سے بھی مثالی تھا۔ مالی قربانی میں پانچویں حصہ کی موصیہ تھیں۔ ہر طوعی چندہ میں باقاعدگی سے حصہ لیتیں۔ اُن کی خواہش تھی کہ میری زندگی میں ان کی وفات ہو۔ باوجود عمر میں مجھ سے چھوٹا ہونے کے اُن کی یہ خواہش پوری ہوئی۔
مکرم مبارک احمد طاہر صاحب ابن محترم مولوی محمد منور صاحب نے جب یہ کتابچہ سیدنا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بھجوایا تو حضور انور نے اپنے دست مبارک سے جوابی مکتوب تحریر فرماتے ہوئے لکھا:
’’…یہ ذکر خیر محض ایک پاک بی بی کی یاد میں نہیں بلکہ بہت سے پاکباز وجودوں کی یاد پر مشتمل ہے۔ کیسے کیسے سادہ، پاک، بے تکلّف، بے ریا، غیراللہ سے تہی لوگ تھے۔ اللہ اور رسولؐ سے سینوں کو منور کئے ہوئے، قناعت کے شہزادے اور شہزادیاں، دل ذکراللہ سے مطمئن، آنکھیں اُس کی عطاء سے ٹھنڈی، سرتا پا شکر، مجسم حمد، رَاضِیَۃً مَرْضِیَۃ۔ یہ آخرین تو اپنی مرادوں کو پاگئے اور اوّلین سے جاملے۔ اور اپنا حال یہ ہے کہ ستاری کے پردہ کی اوٹ میں عفو کی چادر میں لپٹ کر تحلیل ہوجانے کو جی چاہتا ہے… سوچتا ہوں کبھی آپ کی امی سے ملاقات ہوئی یا نہیں۔ شائد کبھی دفتر وقف جدید میں مجھ سے دوا لینے آئی ہوں۔ آئی بھی ہوں تو مجھے کیا پتہ لگ سکتا تھا کہ کون اور کیا ہیں۔ عزت تو مَیں سب کی کرتا تھا مگر اُن کو اٹھ کر ملتا، اُن کا دل کی گہرائیوں سے احترام کرکے عزت پاتا، اُن کو دعائیں دیتا، اُن سے دعائیں لیتا۔ دل بھر کے آج آپ سب کا غم مَیں نے دل پر لے لیا ہے مگر بانٹ نہیں سکتا۔ بانٹنے سے تو غم کم ہوجانے چاہئیں مگر انسان کے دکھ بانٹنے کا قصہ تو برعکس اثر دکھاتا ہے۔ کاش مَیں آپ کا اور سب محروموں کا غم کم کرسکتا لیکن انسان بڑا بے بس ہے۔…‘‘