محترمہ آمنہ بی بی (امۃالرشید) صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ21؍جنوری2014ء میں مکرمہ آمنہ بی بی (امۃالرشید) صاحبہ کا ذکرخیر مکرم حکیم منور احمد عزیز صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ آپ رقمطراز ہیں کہ ہماری والدہ محترمہ بخت بی بی صاحبہ بنت حضرت میاں کرم دین صاحبؓ نے بچوں میں احمدیت کی محبت اور اخلاق کی ترویج کی انتہائی کوشش کی۔ میری بہن امۃالرشید کی پیدائش 1943ء میں ہوئی۔ بچپن میں ایک مرتبہ شدید گرم موسم میں روزے رکھنے کی وجہ سے اتنی بیمار پڑگئیں کہ زندگی کی امید ختم ہوگئی لیکن اللہ تعالیٰ نے شفا عطا فرمادی۔ آپ کو والد محترم کی طرف سے دو آنے روزانہ ملا کرتے جو آپ جمع کرتی رہیں اور گھر کے حالات کے پیش نظر یہ رقم اپنی والدہ کو اپنا جہیز تیار کرنے کے لیے دے دی۔ عزیزہ کی شادی مکرم مرزا لطیف احمد صاحب کے ساتھ 1956ء میں ہوئی جو قادیان سے ہجرت کرکے ننکانہ صاحب آبسے تھے۔ شادی کے بعد یہ فیملی ربوہ منتقل ہوگئی۔ آپ کی ساس صاحبہ نے ایک خواب کی بِنا پر آپ کا نام آمنہ بی بی سے بدل کر امۃالرشید رکھ دیا تھا۔

مرحومہ نے بچوں کی تربیت پر بہت محنت کی، صبح نماز اور تلاوت کے بعد ناشتہ ملتا۔ بچے جماعتی کاموں میں بھرپور حصہ لیتے۔ بچیوں کی سہیلیوں کا خود جائزہ لے کر انتخاب کرتیں۔ وصیت کا چندہ ہر آمد پر پہلے ادا کرتیں۔ دعاگو اور تہجدگزار تھیں۔ تسبیحات سے رغبت تھی۔ ایک نوجوان بیٹے کی وفات کا صدمہ نہایت صبر سے برداشت کیا۔ غرباء کی مدد باقاعدگی سے کیا کرتی تھیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی عادت ڈالی۔ بڑی رحم دل اور متوکّل علی اللہ خاتون تھیں۔ آپ کے ایک بیٹے مرزا نعیم احمد صاحب کو 2012ء میں جرمنی میں قیام کے دوران برین ہیمرج ہوگیا تو وہ روزانہ ایک بکرا صدقہ کرتے رہے اور صحت یابی پر آٹھ ہزار یورو کی رقم غرباء کے لیے حضورانور ایدہ اللہ کی خدمت میں پیش کی جو حضورانور نے افریقہ کے ترقیاتی منصوبوں میں جمع کروانے کا ارشاد فرمایا۔
محترمہ امۃالرشید صاحبہ7؍مارچ1997ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپرد خاک ہوئیں۔بوقت وفات آپ نے شوہر کے علاوہ پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں چھوڑے جو سب نظام وصیت میں شامل اور خوشحال ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں