محترمہ بشیراں بیگم صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍جون 2000ء میں مکرم عبدالحلیم طیب صاحب اپنی والدہ محترمہ بشیراں بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت ماسٹر چراغ محمد صاحبؓ (آف کھارا) کا ذکر خیر کرتے ہوئے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ میرے والد صاحب35 سال سے زائد عرصہ تک پرائمری طلباء کے انگریزی کے استاد رہے۔ میری والدہ کی پیدائش پر اُن کی والدہ وفات پاگئیں اور کچھ عرصہ بعد والد کی بھی وفات ہوگئی تو چچا نے بڑی محبت سے میری والدہ کی پرورش کی۔ میرے والد صاحب کی میری والدہ سے تیسری شادی تھی۔ پہلی دونوں بیویاں وفات پاچکی تھیں اور دوسری بیوی سے ایک بیٹا بھی تھا۔ میری والدہ کے بطن سے ہم نو بھائی اور دو بہنیں پیدا ہوئیں۔ بہنیں کم عمری میں فوت ہوگئیں اور ایک بھائی بھی خدا تعالیٰ کو پیارا ہوگیا تو میری والدہ نے اس کا بہت غم کیا۔ اس پر خدا تعالیٰ نے انہیں خواب میں کہا کہ اگر مَیں تیری دوسری اولاد کو بھی واپس بلالوں تو پھر تُو کیا کرے گی۔ اسی خواب کی حالت میں خدا تعالیٰ نے وضو کرنے کے لئے لوٹا دیا اور کہا: ’’نماز پڑھ‘‘۔ انہوں نے بہت استغفار کیا اور پھر تقویٰ شعاری سے ساری زندگی گزاردی۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ کے ساتھ میری والدہ کا پیار ومحبت کا ہمیشہ تعلق رہا۔ خدمت اقدس میں مجھ سے خط لکھواتیں اور خط پر اپنا انگوٹھا لگاتیں تاکہ حضور کو پتہ چل جائے کہ خط اُن کی طرف سے ہی ہے۔ 1991ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہوئیں۔ اختتام جلسہ پر جب والدہ صاحبہ نے دوبارہ ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو حضور انور نے فرمایا کہ چونکہ اُن کیلئے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آنا مشکل ہے اس لئے مَیں خود نیچے آکر ملاقات کروں گا۔ حضور کا ہم سب پر یہ ایک عظیم احسان ہے۔
ہجرت کے وقت گاؤں کے عزیزوں نے اپنی امانتیں والدہ صاحبہ کے سپرد کردیں جو انہوں نے پاکستان پہنچنے پر لوٹائیں۔ بچوں کی ہر پہلو سے عمدہ تربیت کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کی طرف توجہ دلاتیں۔ خدا تعالیٰ نے انہیں اندازاً ایک سو سال زندگی عطا فرمائی۔ لمبی عمر کا راز یہ تھا کہ ہمیشہ بہت زیادہ پاک و صاف رہتیں، سادہ غذا اور دودھ دہی کا استعمال کرتیں، سردیوں میں پنجیری اور گرمیوں میں بادام، سونف اور خشخاش کا استعمال کرتیں۔
آپ بہت دعاگو تھیں۔ اللہ تعالیٰ بھی آپکی دعاؤں کو خاص قبولیت سے نوازتا۔ ایک بار نماز کے دوران والدہ صاحبہ مسکرائیں، میرے والد دیکھ رہے تھے۔ بعد میں پوچھنے پر بتایا کہ نماز میں التحیات کی حالت میں خدا تعالیٰ نے بشارت دی کہ کریم لیفٹیننٹ ہوگیا ہے۔ اُسی دن میرے بھائی عبدالکریم صاحب کی فوج میں سیلیکشن ہوئی اور وہ کرنل کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے۔
29؍فروری 2000ء کو آپ کی وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں