محترمہ بیگم زبیدہ بانی صاحبہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍اپریل 2002ء میں مکرم شریف احمد بانی صاحب اپنی والدہ محترمہ بیگم زبیدہ بانی صاحبہ اہلیہ محترم سیٹھ محمد صدیق بانی صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہماری والدہ صاحبہ 12؍ستمبر 2001ء کو کلکتہ (انڈیا) میں بعمر 85 سال وفات پاگئیں۔ آپ نے 1945ء میں تقسیم ملک سے قبل ہی وصیت کی تھی اور اپنی زندگی میں ہی حصہ جائیداد ادا کرچکی تھیں۔ 13؍ستمبر کو بہشتی مقبرہ قادیان میں آپکی تدفین عمل میں آئی۔
ہمارے والدین چنیوٹ کے رہنے والے تھے۔ میرے دادا میاں حاجی سلطان محمود صاحب کلکتہ میں تجارت کرتے تھے۔ 1910ء میں اُن کی اچانک وفات ہوئی تو میرے والد صاحب کی عمر صرف دس سال تھی۔ جلد ہی دادا جان کا کاروبار ختم ہوگیا اور والد صاحب کو کلکتہ جانا پڑا تاکہ ملازمت کرکے گھر کا خرچ چلا سکیں۔ پھر وہیں اپنا چھوٹا سا ذاتی کاروبار شروع کیا تو والدہ صاحبہ نے اپنا سارا زیور اُنہیں دیدیا۔ اللہ تعالیٰ نے قلیل عرصہ میں اُن کے کاروبار میں بہت برکت عطا فرمائی۔ لیکن 1946ء کے فسادات میں یہ کاروبار مکمل طور پر تباہ ہوگیا اور والد صاحب لاکھوں روپے کے مقروض ہوگئے۔ چنانچہ انہوں نے نئے سرے سے کاروبار شروع کیا اور اللہ تعالیٰ نے پہلے سے بھی زیادہ بڑھاکر عطا کیا۔
1918ء میں میرے والد صاحب کو حضرت مصلح موعودؓ کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت عطا ہوئی تھی۔ والد صاحب زیادہ تر بسلسلہ کاروبار کلکتہ میں رہتے تھے اور ہم بہن بھائی اپنی والدہ کے ساتھ چنیوٹ میں رہ کر تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ایسے میں ہماری والدہ نے فیصلہ کیا کہ بچوں کی تربیت کے لئے چنیوٹ کا ماحول مناسب نہیں ہے چنانچہ 1940ء میں ہم نے ہجرت کرکے قادیان میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔ والدہ صاحبہ کا ہم بچوں پر یہ بہت بڑا احسان تھا۔
میرے والدین کو احمدیت اور خلافت سے عشق تھا۔ دونوں اس بات کے منتظر رہتے کہ حضورؓ کوئی تحریک فرمائیں تو یہ سب سے پہلے لبیک کہہ سکیں۔ والدہ صاحبہ کو اللہ تعالیٰ نے دُوراندیشی بھی عطا فرمائی تھی۔ تقسیم ملک سے قبل ایک بار جب والد صاحب کلکتہ سے قادیان آئے تو ارادہ کیا کہ بقیہ عمر خدمت دین میں گزاریں گے۔ والدہ صاحبہ نے کہا کہ بچے ابھی چھوٹے ہیں، جب تک بڑے ہوکر کاروبار سنبھالنے کے قابل نہیں ہوجاتے، اُس وقت تک اپنا ارادہ ملتوی کردیں۔ لیکن والد صاحب مصر تھے کہ اب قادیان سے نہیں جائیں گے۔ اس پر والدہ صاحبہ نے تجویز دی کہ حضورؓ سے فیصلہ کروالیں۔ چنانچہ دونوں حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ساری بات عرض کردی۔ حضورؓ نے بھی والدہ صاحبہ کی رائے سے اتفاق فرمایا۔ چنانچہ والد صاحب نے اپنا ارادہ ترک کردیا۔
تقسیم ملک کے بعد میرے والدین کو درویشانِ قادیان کی غیرمعمولی خدمت کی توفیق ملی۔ میری والدہ درویشان کے ہر گھر میں خود جاکر جائزہ لیتیں اور حتی الامکان ہر ایک کی ضروریات میں ہاتھ بٹانے کی کوشش کرتیں۔ میرے والدین سارا سال اس بات کی تیاری کرتے کہ جلسہ پر جاکر کس طرح درویشان کی خدمت کرسکیں گے۔ یہ عمل سال بہ سال جاری رہتا۔ میرے والد صاحب صدر انجمن احمدیہ قادیان کے ممبر بھی رہے اور جلسہ سالانہ قادیان کے بعض اجلاسات کی صدارت کی سعادت بھی آپ کو ملی۔ والدہ صاحبہ کو بھی زنانہ جلسہ گاہ میں صدارت کا شرف حاصل ہوا۔ 1972ء میں دونوں کو حج بیت اللہ کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ اُن کی خدمت کیلئے خاکسار بھی اس سعادت میں شامل ہوگیا۔ اسی طرح تحریک جدید جو میری پیدائش سے پہلے کی تحریک ہے، کے دفتر اوّل کے مجاہدین میں مَیں صرف اپنے والدین کے اخلاص کی وجہ سے شامل ہوں۔
محترمہ والدہ صاحبہ اپنی ذاتی زندگی میں نہایت کفایت شعار تھیں اور گھر کا ماحول انتہائی سادہ تھا۔ لیکن خدمت دین کے وقت اپنی طاقت سے بڑھ کر خرچ کرتیں۔ کئی بے سہارا اور یتیم بچیوں کی رخصتی اپنے گھر سے اپنی سرپرستی میں کی۔ متعدد مساجد کی تعمیر میں نمایاں حصہ لیا۔ اُن کی خواہش پر حضور ایدہ اللہ نے اجازت مرحمت فرمائی کہ فضل عمر ہسپتال میں عورتوں کے لئے ایک تین منزلہ عمارت تعمیر کی جائے جس کا نام ’’بیگم زبیدہ بانی میٹرنٹی ونگ‘‘ ہے۔