محترمہ بی بی نور جان صاحبہ آف کاٹھگڑھ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم اکتوبر 2010ء میں مکرم رانا عبدالرزاق خاں صاحب نے اپنی دادی محترمہ بی بی نور جان صاحبہ کا ذکرخیر کیا ہے۔
حضرت رانا احمد حسن خان صاحبؓ (جنہوں نے 1903ء میں قبول احمدیت کی سعادت پائی تھی) کے ہاں محترمہ بی بی نور جان صاحبہ 1906ء میں کاٹھگڑھ میں پیدا ہوئیں ۔ آپ چار بہنیں اور تین بھائی تھے۔ آپ کی شادی 1926ء میں اپنے تایازاد عبدالرحیم خان صاحب سے ہوئی جن کی والدہ احمدی نہیں تھی۔ جلد ہی آپ کے خاوند نے بھی جماعت چھوڑ دی اور آپ کو بھی اس کے لئے مجبور کرنے لگے۔ اس وقت ایک بیٹا بشیر احمد پیدا ہوچکا تھا۔ آپ کو احمدیت سے منحرف کرنے کے لئے احمدیہ مسجد جانے سے روکتے اور اگر آپ کو واپسی پر دیر ہوجاتی تو دروازہ نہ کھولتے۔ ایک بار رات بھر آپ کو سردی میں رات باہر گزارنا پڑی۔ آپ کے چھوٹے سے بیٹے کو بھی کہتے کہ اگر تُو کہے گا کہ مَیں احمدی نہیں ہوں تو پھر دودھ ملے گا۔ جب آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی تو پھر مارپیٹ کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ اس پر آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حالات عرض کئے اور حضورؓ کے مشورہ پر 1938ء میں قادیان چلی گئیں۔
قادیان میں محترمہ بی بی نورجان صاحبہ حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی اہلیہ حضرت بی بی بو زینب صاحبہ کے ہاں بطور ملازمہ ملازم ہوگئیں۔ آپ کے بیٹے مکرم بشیر احمد خاں صاحب نے قادیان سے میٹرک کیا اورپھر حضرت میاں صاحبؓ کی فیکٹری میں ہی ملازم ہوگئے۔ تقسیم ملک کے وقت ان کو قافلوں کے ساتھ حفاظتی ڈیوٹی دینے کا بھی موقع ملا۔ ربوہ کے افتتاح کے موقع پر بھی آپ موجود تھے۔ حضرت مرزا منصور احمد صاحب نے ان کو اپنی کمپنی ’’احمد ٹرانسپورٹ‘‘ کا مینجر بنادیا۔ بعد میں انہوں نے اپنی بھی کمپنی بنائی۔ 1955ء میں انہوں نے دارالیمن میں پہلا مکان بھی تعمیر کروایا۔ ان کے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جن میں سے ایک مکرم مبشر احمد صاحب کارکن صدر انجمن احمدیہ ہیں۔ نومبر 1979ء میں مکرم بشیر احمد خاں صاحب کی وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔
محترمہ بی بی نور جان صاحبہ نے بڑی عزت کے ساتھ زندگی بسر کی۔ آپ سلسلہ کے لئے بہت غیرت رکھتی تھیں۔ نہایت متقی، پابند نماز و روزہ اور سمجھدار خاتون تھیں۔ 1987ء میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئیں۔