محترمہ تانیہ خان صاحبہ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 10؍فروری 2023ء)
محترمہ تانیہ خان صا حبہ (اہلیہ مکرم آصف افضل خان صاحب نیشنل سیکرٹری امورخارجہ کینیڈا) ایک مثالی داعی الی اللہ اور فعال احمدی تھیں۔ دماغ کی شریان پھٹ جانے سے 6؍ اگست 2013ء کو وفات پاگئیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 16؍ اگست2013ء کے خطبہ جمعہ میں مرحومہ کا ذکر خیر فرمایا اور نماز جمعہ کے بعد اُن کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ مکرمہ تانیہ خان صا حبہ پیشہ کے لحاظ سے مقامی سکول میںٹیچر تھیں۔ 3؍ستمبر2013ء کو صوبہ اونٹاریو میں نئے تعلیمی سال کا پہلا دن تھا۔ اس موقع پر کینیڈا کے کثیرالاشاعت اخبار ٹورانٹو سٹار نے مرحومہ سے متعلق نمایاں طور پر ایک مضمون شائع کیا جس کا اردو ترجمہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍جنوری 2014ء میں مکرم آصف منہاس صاحب نے پیش کیا ہے۔
میپل کی رہائشی تین بچوں کی 38سالہ ماں صرف ایک باپردہ ٹیچر سے بڑی تھیں۔ وہ اپنے مذہب اور عقیدے پر پوری طرح کاربند اور بین المذاہب ڈائیلاگ کے لیے سرگرم تھیں۔ وہ اپنے طلباء کے علاوہ اساتذہ کے لیے بھی مثالی نمونہ تھیں۔ وہ ایک غیرمعمولی حس مزاح رکھنے والی خاتون تھیں اور بخوبی جانتی تھیں کہ کس طرح سے لوگوں کو کلاس روم میں اور کلاس سے باہر مطمئن رکھا جاسکتا ہے۔ان کی بہت سی ایسی سہیلیاں تھیں جن میں سے ہر کوئی یہ سمجھتی ہے کہ وہ ان کی بہترین دوست تھی۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان کے جنازہ میں شریک ہوئے جن میں صوبہ اونٹاریو کی وزیراعلیٰ کیتھلین وِن بھی شامل تھیں۔
ٹورانٹو کے لوگوں سے تانیہ خان کا پہلی دفعہ اکتوبر 2006ء میں بڑے پیمانے پر تعارف ہوا جب وسط رمضان میں انہوں نے سٹار کے رپورٹر اور فوٹوگرافر کو دعوت دی کہ وہ سارا دن ان کے اہل خانہ کے ساتھ گزاریں۔ دوسری دفعہ خبروں میں وہ دو سال بعد تب آئیں جب انہوں نے بطور شریک چیئرمین 28 خواتین کے ایک گروپ سمیت (ایک رفاہی ادارہ) Habitat for Humanity کے تحت 6گھروں کی دیواریں (ڈرائی وال) لگائیں۔
دعوت الی اللہ کے حوالے سے انہوں نے ایک دفعہ کہا کہ سکول میں باپردہ رہنا بہت مثبت تجربہ تھا۔ مجھے بہت سے سوالات کا سامنا رہا اور مَیں یہ چاہوں گی کہ مجھ سے اس بارے میں اَور بھی سوالات کیے جائیں۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ کوئی ہمارے عقیدہ کے بارہ میں جانے تو ہمیں بھی ان کے بارہ میں جاننا ہوگا۔ تمام دوسری چیزوں سے ورے، تمام بین المذاہب سرگرمیوں کے بعد ایک چیز ہمیشہ میرے ذہن میں گونجتی ہے کہ مختلف عقائد کے لوگ جو ہمیں ملنے آتے ہیں ان میں زیادہ قدریں باہم مشترک ہیں بہ نسبت اختلافات کے۔آپ ایک طرح عبادت کرتے ہیں، میں دوسری طرح لیکن بالآخر ہم ایک ہی خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ ربائی (یہودی عالم) لوری کوہن کا کہنا ہے کہ تانیہ خان دوسرے لوگوں تک پہنچنے کا ہنر جانتی تھیں۔
تانیہ خان ایڈمنٹن میں 1975ء میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والدین ان کی پیدائش سے ایک سال قبل ہی لبنان سے ہجرت کرکے کینیڈا آئے تھے۔ اور یہ جب 10سال کی تھیں تو ان کے والدین ٹورانٹو آگئے جہاں انہوں نے ایک ریسٹورنٹ کھولا۔ ان کی والدہ عمال الروادہ کے مطابق پانچ لڑکیوں میں سب سے بڑی تانیہ ہمارے خاندان کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی۔ وہ اپنی بہنوں کے لئے بھی رول ماڈل تھی اور اُن کے لئے ماں کی طرح تھی۔
جب یونیورسٹی جانے کا وقت آیا تو (تانیہ) خان کے والدین نے اسے چند سال تعلیم مؤخر کرنے کا کہا تاکہ ریسٹورنٹ کے انتظام میں شامل ہوسکے لیکن وہ اس کے لیے قائل نہ کرسکے کیونکہ وہ جلد یونیورسٹی جانا چاہتی تھیں۔ چنانچہ وہ رائرسن یونیورسٹی میں بزنس پروگرام میں داخل ہوگئیں۔
تانیہ خان دروزی عقائد رکھنے والے ایک خاندان میں پیدا ہوئیں۔ یونیورسٹی میں ان کا اسلام کی طرف رجحان ہوا۔ان کے خاوند آصف خان کے مطابق جب ہماری پہلی ملاقات ہوئی تو وہ بائبل اور قرآن کریم ازخودپڑھ چکی تھیں اور یہ فیصلہ کرچکی تھیں کہ اب وہ ایک مسلمان ہیں۔ انہوں نے یہ فیصلہ میرے ساتھ تعارف کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے دل کی آواز پر کیا۔ کیونکہ وہ خود یہی چاہتی تھیں۔
1998ء میں بیچلر ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہیں جو ملازمت ملی اس کی وجہ سے ان کو ہر چند ماہ کے بعد آسٹریلیا کا سفر اختیار کرنا پڑتا تھا۔انہوں نے اس بات کا خیال رکھا کہ ان کا شیڈول بچوں کے شیڈول سے مطابقت رکھے تاکہ وہ ان کی تربیت کے لیے ان کے آس پاس رہیں۔
اپنی پہلی بچی کی پیدائش کے بعد 2002ء میں انہوں نے مزید تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور یارک یونیورسٹی سےB.Edکی ڈگری حاصل کی اور ایک پبلک سکول میں بطور ٹیچر ملازمت حاصل کرلی۔ اپنے 11سالہ ٹیچنگ کیریئر کے دوران مختلف سکول بورڈز میںحصہ لیتے ہوئے انہوں نے سکولوں میں مساوات اور جامعیت پیدا کرنے پر زور دیا جس کا اعتراف اعلیٰ سطح پر کیا گیا۔
تانیہ خان نے اپنے طلباء پر گہری چھاپ چھوڑی۔ایک 20سالہ نوجوان لڑکی ماذوقہ، جو 2003ء میں ان کی طالبعلم رہی ہیں، کہتی ہیں کہ وہ ایک باذوق خاتون تھیں جن کی سوچ نئے زمانے سے مطابقت رکھتی تھیں وہ ایک پرولولہ اور دل موہ لینے والی شخصیت تھیں۔انہوں نے حدود و قیود کو مثبت انداز میں آگے بڑھایا۔ انہیں علم تھا کہ وہ ہم بچوں کے ساتھ کیسے چل سکتی ہیں۔ مَیں اُن کی ہیلتھ کی کلاس نہیں بھول سکتی۔ کسی نے بھی ہمیں، معصوم اور سادہ لوح بچوں کو ہماری آئندہ جسمانی ضروریات کے مطابق صحت کے بارہ میں اس طرح نہیں بتایاجیسا انہوں نے۔ اُن کے دلکش سلوک،پُرسکون طرزعمل اور حکمت و دانائی نے ہماری بڑھتی ضرورتوں کے متعلق ہمیں بہت کچھ سکھایا۔آپ نے ہمیں مساوات سکھائی۔
تانیہ خان نے اپنے جسم کے 6مختلف اعضاء 5مختلف افراد کو عطیہ کیے ہیں۔ ایک کو ان میں سے جگر اور لبلبہ لگایا گیا ہے۔ وہ ایک مثالی عطیہ کنندہ ثابت ہوئیں کیونکہ خوش قسمتی سے ان کے خون کا گروپ O Positive تھا۔
اپنی آخری بیماری سے ایک ماہ پہلے انہوں نے ایک آرٹسٹ کی تصویر خریدی جس پر تحریر ہے ’’اگر آپ بغیر مقصد کے زندہ رہتے ہیں تو بے نام مر جاتے ہیں‘‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں