محترمہ حبیب النساء بیگم صاحبہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8 ستمبر 2010ء میں مکرم شیخ ناصر احمد خالد صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں محترمہ حبیب النساء بیگم صاحبہ والدہ مکرم شیخ خورشید احمد صاحب کا ذکر خیرکیا گیا ہے۔
حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب سابق امام مسجد فضل لندن کو محترمہ خدیجہ بصری صاحبہ کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے (ڈاکٹر کیپٹن حافظ بدرالدین احمد صاحب سابق امیر جماعت کراچی اور مکرم پروفیسر شیخ محبوب عالم خالد صاحب سابق پرائیویٹ سیکرٹری و ناظر مال) اور ایک بیٹی (محترمہ حبیب النساء بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ سلامت علی صاحب آف لاہور) عطا فرمائی۔
محترمہ حبیب النساء بیگم صاحبہ 1903ء میں پیدا ہوئیں اور14 مارچ 1927ء کو صرف 24 سال کی عمر میں وفات پاکر بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئیں۔ آپ کی یادگار ایک بیٹا (مکرم شیخ خورشید احمد صاحب سابق اسسٹنٹ ایڈیٹر اخبار الفضل) تھا جس کی عمر اُس وقت 8 سال تھی۔ مرحومہ کی علالت کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثانی تیمارداری کے لئے ان کے مکان پر تشریف لائے اور وفات کے بعد مرحومہ کی نماز جنازہ حضورؓ نے پڑھائی، میت کو کندھا دیا اور جنازہ کے ساتھ بہشتی مقبرہ قادیان تشریف لے گئے اور تدفین کے بعد دعا کروائی۔
آپ کی وفات پر روزنامہ ’’الفضل‘‘ اور رسالہ ’’مصباح‘‘ میں اعلان شائع ہوئے جن میں بتایا گیا کہ مرحومہ نہایت سعید اور قابل خاتون تھیں۔ مدرسۃالخواتین میں باوجود گھر اور بچہ والی ہونے کے داخل ہوئیں اور اس شوق اور محنت سے پڑھائی کی کہ سب سے اول رہیں۔ پھر اجلاس لجنہ میں ہمیشہ اعلیٰ مضمون پڑھے۔ ان کے شریفانہ اخلاق کے باعث مجلس میں ایک قسم کا رعب رہتا۔
تاریخ لجنہ اماء اللہ (پہلی جلد) کے صفحہ 154 پر مدرسۃ الخواتین کی 31 خواتین کے ناموں کی فہرست میں مرحومہ کا نام پانچویں نمبر پر تحریر ہے۔ نیز لکھا ہے کہ مرحومہ کو تعلیم کا اس قدر شوق تھا کہ شادی ہوجانے اور بچہ ہو جانے کے باوجود جب مدرسۃالخواتین جاری کیا گیا تو انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں درخواست کی کہ میری تعلیم صرف پرائمری تک ہے۔ قرآن مجید باترجمہ صرف نصف تک پڑھا ہوا ہے۔ مجھے بڑی تڑپ ہے میرے شوہر بھی مجھ سے کم میری تعلیم کے متعلق تڑپ نہیں رکھتے۔ مجھے داخل ہو کر پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے انہیں اجازت دے دی اور جب مرحومہ نے اپنی محنت اور ذاتی ذہانت کی وجہ سے امتحان میں اعلیٰ کامیابی حاصل کی تو حضورؓ نے حوصلہ افزائی کی غرض سے اپنے دست مبارک سے ایک حمائل شریف اپنے دستخط کرکے بطور انعام عطا فرمائی۔
مرحومہ بے حد متوکل، دعاگو، مشکلات پر صبر کرنے والی سادہ مزاج کی حامل خاتون تھیں۔ دنیاداری نام کو نہ تھی۔ جماعت سے وابستگی خلفاء کرام سے محبت، ہر تحریک پر لبیک کہنے کی عادی تھیں۔
محترم شیخ محبوب عالم خالد صاحب کا بیان ہے کہ مرحومہ کی وفات کے بعد حضرت صاحب نے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا کہ اگر زندگی وفا کرتی تو مرحومہ بہت بڑی عالمہ ہوتیں۔
مرحومہ فیروزپور لجنہ اماء اللہ کی پہلی صدر تھیں۔