محترمہ خاتم النساء درد صاحبہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24دسمبر 2009ء میں مکرمہ راشدہ فہیم صاحبہ نے اپنی والدہ محترمہ خاتم النساء درد صاحبہ اہلیہ محترم محمد شفیع اشرف صاحب مرحوم سابق ناظر امورعامہ کا ذکرخیر کیا ہے۔
حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ کی پانچویں بیٹی محترمہ خاتم النساء درد صاحبہ کا نام تجویز کرتے وقت حضرت مصلح موعودؓنے فرمایا کہ خدا تعالیٰ اس کے بعد بیٹے بھی دے گا۔ چنانچہ آپ کے بعد یکے بعد دیگرے تین بیٹوں کی پیدائش ہوئی ۔ آپ کا حضرت ام ناصرؒ سے رضاعت کا رشتہ بھی تھا۔
تہجد، بر وقت ادائیگی نماز اور تلاوت قرآن کریم آپ کا معمول تھا۔ وفات سے قریباً ایک سال قبل صحت یکدم بہت کمزور ہو گئی تو ہر وقت خداتعالیٰ سے صحت یابی کی دعا کرتی رہتیں۔ ایک روز فجر کے بعد آواز آئی: ’’کلکیریا فاس کھاؤ‘‘۔ آپ کو دوائیوں سے کوئی خاص دلچسپی بھی نہ تھی اور اس دوا کا نام پہلے کبھی سنا بھی نہیں تھا۔ تاہم اگلے ہی روز سے یہ دوا منگواکر استعمال کرنا شروع کردی تو آپ کو اس سے خاطر خواہ فائدہ ہوا اور کئی شکایات کا خدا کے فضل سے ازالہ ہو گیا۔
1997ء میں آپ اپنی بیٹی سے ملنے ناروے گئیں۔ بھرپور کوشش کے باوجود UK کا ویزہ نہ مل سکا کہ خلیفۂ وقت سے ملاقات کی خواہش پوری ہوسکتی۔ لیکن آپ نے دعائیں جاری رکھیں اور ناروے پہنچتے ہی پھر ویزہ کے لئے اپلائی کر دیا تو خلاف معمول آپ کو دس دن کا ویزہ مل گیا۔ چنانچہ فوراً ہی لندن چلی گئیں اور دو بار ملاقات کرنے کی سعادت پائی۔
قادیان کی زیارت کی انتہا ئی خواہش تھی اور 2006ء کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے ویزہ کی درخواست دی ہوئی تھی کہ ستمبر میں آپ کو ہارٹ اٹیک ہوا۔ ہسپتال میں زیرعلاج رہیں اور صحت یکدم بہت کمزور ہو گئی۔ ان کی کمزور صحت کے پیش نظر کبھی کبھی دل میں آتا کہ خدا کرے آپ کو ویزہ نہ ملے لیکن آپ کی تڑپ اور دعائیں رنگ لائیں۔ اور نہ صرف آپ کو بلکہ مجھے اور میرے دونوں بھائیوں کو بھی ویزہ مل گیا اور یوں خدا تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کے لئے ہر طرح کی سہولت میسر فرما دی۔
دعا پر اس قدر یقین تھا کہ ہر چھوٹے سے چھوٹے کا م کے لئے بھی دعا ہی کا سہارا لیتیں۔ ایک مرتبہ آپ کی ایک قیمتی انگوٹھی گم ہو گئی جو ہر ممکن تلاش کے باوجود نہ ملی۔ آخر ایک رات خدا کے حضور نہایت گڑگڑا کر انگوٹھی کی بازیابی کی دعا کی۔ ابھی دعا میں ہی مشغول تھیں کہ آواز آئی ’’ انگوٹھی پرس کی چھوٹی جیب میں ہے‘‘۔ آپ نے اسی وقت اپنا پرس جسے وہ متعدد بار پہلے ہی کھنگال چکی تھیں پھر سے دیکھا تو واقعی انگوٹھی چھوٹی جیب میں موجود تھی۔
آپ ایک واقف زندگی باپ کی بیٹی، واقف زندگی شوہر کی بیوی اور واقف زندگی بیٹوں کی ماں تھیں۔ اس راہ میں سادگی، استقامت اور قربانیاں دینے کی توفیق بھی پائی۔ تنگی ترشی میں بھی کبھی کسی قسم کا شکوہ زبان پر نہ لاتیں۔ ہر چیز حتّی کہ پانی کا استعمال بھی نہایت کفایت شعاری سے کرتیں۔ بے حد سلیقہ مند تھیں۔ کھانا پکانا، سلائی ،کڑھائی، کروشیا، نٹنگ بہت عمدہ کر لیتی تھیں۔ دن کے کاموں سے فارغ ہوکر رات کو ہم بچوں کے کپڑے سلائی مشین نہ ہونے کی وجہ سے ہاتھ سے ہی سی لیتیں اور اکثر اپنے پرانے کپڑوں اور سویٹروں سے ہی بچوں کے کپڑے اور سویٹر نہایت عمدہ ڈیزائن میں تیار کر لیتیں۔ نئے اور پرانے کپڑوں سے نہ صرف خوبصورت کشن، میٹس، جزدان ،رضائیوں کے کور بلکہ چھوٹے چھوٹے Rugs بھی بنا کر عزیزو اقارب کو تحفۃ ً بھجواتی رہتیں۔ لجنہ کی نمائش میں بھی ہمیشہ اپنے ہاتھ سے چیز بنا کر دیتیں۔
غرباء کے ساتھ آپ کا بہت تعلق تھا۔ ربوہ کے نواحی دیہات کی خواتین جو کسی زمانہ میں دودھ لایا کرتی تھیں وہ مستقل آتی رہتیں۔ میں کبھی از راہِ مذاق کہتی کہ آپ نے کس قسم کی سہیلیاں بنائی ہوئی ہیں تو کہتیں کہ امراء سے تو ہر کوئی دوستی رکھنا پسند کرتا ہے اصل عبادت تو یہ ہے کہ غرباء کو دوست رکھا جائے اور پھر مجھے نصیحت کی کہ میرے بعد بھی میری ان سہیلیوں کا ضرور خیال رکھنا۔ آپ ہمیشہ ان مستحق خواتین کے لئے ضرورت کی اشیاء کے پیکٹ بناکر رکھتیں۔ مجھے بھی ہمیشہ ان کی مدد کرنے کی تحریک کرتی تھیں۔ یہ خواتین آپ کے پاس گھنٹوں بیٹھ کر اپنے دل کی باتیں کرتی رہتیں۔ آپ پوری توجہ سے ان کی باتیں سنتیں اور تسلّی دیتیں اور کبھی بیزاری کا اظہار نہ کرتیں۔
آپ ایک اچھی رازداں تھیں۔ بعض اوقات دونوں فریق آپ کے پاس آکر اپنا غبار نکالتے مگر آپ کسی کو فریق ثانی کی کہی ہوئی باتوں کی بھنک بھی نہ پڑنے دیتیں ہاں ایسی باتوں کا حوالہ ضرور دیتیں جو اصلاحِ احوال میں مدد گار ثابت ہوسکیں۔ عزیزو اقارب اپنی پریشانیاں بتاتے تو آپ اچھے مشوروں کے علاوہ دعائیں بھی کرتیں اور ہم بچوں کو بھی تاکید کرتیں کہ فلاں کیلئے دعا کرنا خدا تعالیٰ اس کی مشکل دُور کرے۔ اکثر بچیاں دعا کے لئے کہتیں اور آپ اُن کے لئے دل سے دعا کرتیں۔ ایک پریشان حال بچی کے لئے تو بے حددعائیں کیں اور ایک رات بہت اچھی خواب دیکھی اور اسے بتادیا ۔ چنانچہ چند ماہ کے اندر ہی اس کا بہت اچھی جگہ رشتہ طے ہو گیا۔
طبیعت بے حد سادہ تھی ہوشیاری چالاکی نام کو نہ تھی کبھی کسی سے جھگڑا نہیں کیا بلکہ اگر کوئی زیادتی کرجاتا تو فوری طور پر ا س کا جواب بھی نہ دے سکتی تھیں۔ بہت دکھی ہوتیں لیکن ہمیشہ کہتیں کہ میں نے اپنا معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا ہے۔
آپ کا ہمارے ابّا کے ساتھ تعلق بھی مثالی تھا۔ اُن کی تمام ضروریات کا ہر طرح خیال رکھتیں۔ ہم نے کبھی آپ کو ابّا سے جھگڑتے نہیں دیکھا۔ خلاف مزاج بات ہوتی بھی تو خاموش ہو جاتیں۔ کبھی کوئی فرمائش نہ کرتیں۔ ابّا جو بھی لا دیتے یا جتنی رقم مہیا کرتے اس میں نہ صرف خوش اسلوبی سے گزارہ کرلیتیں بلکہ بچت بھی کرلیتیں ۔آپ اگرچہ اس قدر نرم دل تھیں کہ دوسرے کی معمولی تکلیف کے ذکر پر ہی آبدیدہ ہو جاتیں مگر خود نامساعد حالات میں ہمیشہ بہادری کا مظاہرہ کرتیں۔ ہمارے بچپن میں آپ کی صحت خراب رہتی تھی لہٰذا اشیائے ضروریہ کی خریداری کے لئے آپ کبھی بازار نہیں جاتی تھیں یہاں تک کہ آپ کے اور ہمارے کپڑوں وغیرہ کی خریداری بھی ابّا ہی کرتے تھے۔ آپ اس معاملہ میں بالکل ناتجربہ کار تھیں۔ مگر1973ء میں جب ابّا کو انڈونیشیا بھجوایا گیا تو تمام کاموں کی ذمہ داری آپ پر آپڑی۔ تب آپ نے تنہا ان امور کو بھی یوں مردانہ وار انجام دیا گویا ہمیشہ سے ہی کرتی چلی آرہی ہوں ۔ ابّا کی وفات کے بعد بھی آپ نے تقریباً بیس سال کا عرصہ نہایت صبر اور ہمت سے گزارا۔ کسی موقع پر بھی آپ نے ابّا کی جدائی کو اپنی کمزوری نہیں بننے دیا اور بچوں کے لئے ممتا کے ساتھ ساتھ پدرانہ شفقت میں بھی کمی نہ آنے دی ۔
آپ ادبی ذوق کی بھی مالک تھیں۔ اچھے اشعار سے نہ صرف لطف اندوز ہوتیں بلکہ زبانی بھی یاد تھے۔ خود بھی کبھی کبھار جذبات کا اظہار اشعار کی صورت میں کر لیتیں۔ خوش الحان بھی تھیں اور حسِ مزاح بھی بہت اچھی تھی۔ جماعتی پروگراموں میں ذوق و شوق سے شامل ہوتیں بلکہ جب تک صحت نے ساتھ دیا لجنہ کے اکثر پروگرام اپنے گھر میں منعقد کرواتیں۔ لجنہ کا نصاب یاد کرتیں۔ گزشتہ سال سورہ رحمن یاد کرنا نصاب میں شامل تھا ۔آپ نے خدا کے فضل سے پہلی سہ ماہی میں ہی پوری سورت زبانی یاد کر لی تھی۔مالی تحریکات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں۔ جب بھی کوئی رقم ملتی حصہ وصیت سب سے پہلے ادا کرتیں۔ حضور کے خطبات نہایت باقاعدگی سے سنتیں۔MTA پر اپنی پسند کے پروگرامز کا دن اور وقت خوب یاد ہوتا۔
آپ اپنے انجام بخیر کیلئے ہمیشہ دعاگو رہتیں۔ آپ کو خدا تعالیٰ پر توکل اور یقین تھا کہ وہ کسی تکلیف کے بغیرہی آپ کو اپنے پاس بلا لے گا۔ سو آخری طبیعت کی خرابی چند گھنٹوں پر ہی محیط رہی اور بڑے آرام سے خدا تعالیٰ انہیں اس جہانِ فانی سے لے گیا۔ وصیت کا حساب بالکل صاف تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اﷲ نے لندن میں آپ کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی اور خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکرخیر بھی فرمایا۔