محترمہ رسول بی بی صاحبہ
لجنہ اماء اللہ برطانیہ کے رسالہ ’’النصرت‘‘ دسمبر 2010ء میں محترمہ رسول بی بی صاحبہ کا ذکرخیر اُن کی نواسی مکرمہ عائشہ منہاس صاحبہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
محترمہ رسول بی بی صاحبہ کی ولادت 1901ء میں حضرت ولی داد صاحبؓ کے ہرں مراڑہ ضلع سیالکوٹ میں ہوئی۔ ہر وقت عاجزی سے اپنے ربّ کا شکرادا کرتے رہنا اُن کا شعار تھا۔ تہجد اور فجر کے درمیان باقاعدگی سے دعاؤں میں وقت گزارتیں۔ اکثر نوافل کی ادائیگی میں مصروف ہوتیں۔ خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں چار بیٹے اور تین بیٹیاں عطا فرمائیں۔ کسی کے معاشی مسائل ہوں، کسی کی ترقی نہ ہورہی ہو، کسی کو مکان بنانے کی استطاعت نہ ہو۔ الغرض خدا تعالیٰ ان کی دعا کے نتیجہ میں اپنا خاص فضل فرماتا جو غیرمعمولی ہوتا۔
اگست 1969ء میں آپ کی پیاری بیٹی اور نامور داماد (جنرل اختر حسین ملک صاحب) ترکی میں ایک حادثہ میں وفات پاگئے تو محترمہ رسول بی بی صاحبہ کی زبان سے کوئی جزع فزع کا کلمہ نہیں نکلا۔ صرف آنکھ سے آنسو بہتے۔ پھر صحت تیزی سے گرنے لگی اور 1979ء میں ان کی وفات ہوگئی۔
ایک بار انہیں علم ہوا کہ پاکستان کے ایک نامور سیاستدان نے اپنے اوپر لگائے جانے والے احمدی ہونے کے الزام کے جواب میں حضرت مسیح موعودؑ کے بارہ میں نازیبا کلمات کہے ہیں تو انہوں نے انتہائی کرب سے کہا کہ اب یہ سیاست میں کبھی کامیاب نہیں ہوگا …۔ اور پھر ایسا ہی دیکھنے میں آیا۔
ان کے گاؤں میں ایک پیر صاحب بھی احمدیت کے شدید مخالف تھے، آپ بے دھڑک اُن کے ہاں تبلیغ کے لئے جایا کرتیں اور اُن کو بتاتیں کہ ایک دن آئے گا کہ جب ریڈیو پر احمدیت کی تبلیغ ہؤا کرے گی۔
ایک بار اُن کو خواب میں احمدیت کے تین مراکز دکھائے گئے۔ ایک قادیان، دوسرا ربوہ اور تیسرا خوب سرسبزوشاداب اور کبوتروں والا تھا۔ یہ خواب ان کی وفات کے کئی سال بعد خلیفۃالمسیح کی ہجرت کے نتیجہ میں پورا ہوا۔