محترمہ زہرہ بیگم صاحبہ
سہ ماہی ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا جولائی تا ستمبر 2008ء میں مکرم منیر احمد ملک صاحب نے اپنی والدہ محترمہ زہرہ بیگم صاحبہ کا ذکرخیر کیا ہے جن کی وفات 90 سال کی عمر میں 30مارچ 2003ء کو لاہور میں ہوئی اور تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔
محترمہ زہرہ بیگم صاحبہ کا تعلق چکوال کے ایک چھوٹے سے قصبے سے تھا۔ پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ سادہ اور منکسرالمزاج خاتون تھیں۔ آپ کے والد محترم خواجہ محمد امین صاحب کا ڈیرہ دون (انڈیا) میں آٹو کا کاروبار تھا۔ انہوں نے حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر احمدیت قبول کی تھی۔
ہماری والدہ کو بچوں کی تربیت کی خاص فکر تھی اور وہ ہر کام مقررہ وقت پر کروانے کی کوشش کرتیں، صفائی کا خا ص اہتمام کرتیں اور اپنے نمونہ سے ہمیں اچھی عادات میں راسخ کرتیں مثلاً ہر کام شروع کرتے وقت اونچی آواز میں بسم اللہ پڑھتیں۔ میرے والد ہماری باجماعت نمازوں کے بارہ میں بہت متفکّر رہتے اور والدہ دن بھر کی بچوں کی نمازوں اور دیگر کاموں کی رپورٹ اُن کو رات کے کھانے پر دیدیا کرتیں۔ چنانچہ کئی بار کسی بچے کو کھانا چھوڑ کر اُسی وقت باآواز بلند قضا نماز پڑھنا پڑتی۔ یہ تربیت کا انداز اسی لئے تھا کہ بچوں سے بے حد محبت تھی۔ چنانچہ جب میں دس سال کی عمر میں بیمار پڑگیا تو ڈاکٹر نے جو دوا تجویز کی وہ اتنی مہنگی تھی کہ ہمارے پاس اُسے خریدنے کی گنجائش نہ تھی۔ اباجی نے جب گھر آکر امی کو اس صورتحال سے آگاہ کیا تو والدہ صاحبہ نے اُسی وقت اپنے شادی کی سونے کی چوڑیاں اتار کر والد صاحب کو دیدیں جنہیں بیچ کر دوا خریدی گئی اور اللہ تعالیٰ نے شفا عطا فرمائی۔
امی روزانہ تہجد ادا کرتیں اور فجر کی نماز کے بعد تلاوت کرتیں۔ ہم تلاوت کرلیتے تو ناشتہ دیتیں۔ گھر کی غریب نوکرانیوں کے لئے بہت نرم دل تھیں اور اُن کی مختلف ضروریات کا خیال رکھتیں۔ مجھے بھی تلقین کرتیں کہ مَیں بھی دفتر میں اپنے ماتحت ملازمین کا خیال رکھوں۔ مالی کشائش نہ ہونے کے باوجود امی جی بہت مہمان نواز تھیں۔ ہمارے پھوپھا کی وفات کے بعد پھوپھو اوراُن کی بیٹی ہمارے پاس مستقل رہائش کیلئے آگئیں۔ امی جی جیسا اپنی بیٹیوں سے سلوک کرتیں ویسا ہی پھوپھو کی بیٹی سے کرتیں۔ ایک دفعہ جب میری ایک بہن نے امی جی سے اپنے سسرال کے خلاف غصہ کا اظہار کیا تو امی جی نے اُسے اسی وقت کہا ’’اپنے خاوند یا اپنے سسرال کے خلاف کچھ مت کہنا۔ اللہ تعالیٰ کویہ پسند نہیں‘‘۔ میری بہن کہتی ہیں کہ اس ایک جملہ نے اُسے اپنی ساری زندگی کے لئے ایک سبق دیا۔
امی جی کا دعاؤں پر بہت یقین تھا اور یہ عادت انہوں نے اپنے بچوں میں بھی پیدا کی۔ جب میں چہارم کلاس میں تھا تو والدہ صاحبہ سلائی مشین خریدنا چاہتی تھیں کیونکہ آپ اس سے اپنے شوہر کی مالی مدد کرنا چاہتی تھیں۔ مالی حالت ناساز ہونے کی وجہ سے اُس وقت سلائی مشین خریدنے کے لئے پیسے نہیں تھے۔ اُن دنوں میں امی جی نے مجھے کئی بار دعا کرنے کے لئے کہا جس پر میں نے دعائیں کرنا شروع کردی۔ ابھی دو تین ہفتے ہی گزرے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مشین خریدنے کے سبب پیدا فرما دئے۔ اس واقعہ نے میرے ایمان میں مضبوطی پیدا کی اور میں آج تک دعاؤں سے فائدہ اٹھا رہا ہوں۔ اور یہی چیز میں اپنے بچوں کو سکھا رہا ہوں جو حضرت مسیح موعود ؑ نے ہمیں سکھائی کہ ہر چیز دعاؤں سے ملے گی۔
اگر کسی دن اباجی کو گھر آنے میں معمول سے زیادہ دیر ہوجاتی تو امی جی نوافل ادا کر تیں جن میں اباجی کی بخیریت سفر سے واپسی کی دعا کرتیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کی دعائیں قبول کرتا اور سچی خوابوں سے بھی نوازتا۔ جب میں نے والدین کی اجازت سے اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ 1979ء امریکہ نقل مکانی کی تو شروع کے ایام میں مَیں بہت مشکلات سے دوچار ہوا۔ مشکلات کا حوالہ دئے بغیر میں نے والدین کو بھی دعا کرنے کیلئے خط لکھ دیا۔ میرے خط کے جواب میں امی جی نے مجھے اپنی ایک خواب لکھی جس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ مجھے کانیں کھودنے کی والی کمپنی میں ملازمت ملے گی اور اتنی تنخواہ ہوگی۔ چنانچہ مجھے اُسی کمپنی میں اُتنی ہی تنخواہ میں ملازمت مل گئی۔ میں اسی کمپنی میں 28 سال سے کام کررہا ہوں اور باوجود اس کے کہ کمپنی کافی دشوار مراحل سے گزری اور بہت سی ملازمتیں بھی ختم ہوئیں لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر وقت بچائے رکھا۔
آپ کو آنحضرتﷺ سے بہت عقیدت تھی اور ہمیشہ درود شریف کا ورد کرتی رہتیں۔ آپ نے بچپن میں آنحضرت ﷺ کو خواب میں دیکھا تھا اور جب بھی وہ خواب بیان کرتیں تو آپ کی آنکھوں سے خوشی کا اظہار ہوتا۔ اپنے احمدی ہونے پر فخر تھا اور ہمیں ہمیشہ خلافت سے محبت اور احترام کا درس دیتیں۔