محترمہ سارہ رحمٰن بٹ صاحبہ
ماہنامہ ’’اخبار احمدیہ‘‘ برطانیہ جنوری 2000ء میں محترمہ سارہ رحمن بٹ صاحبہ کا ذکر خیر مکرم ڈاکٹر طارق انور باجوہ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
محترمہ سارہ رحمٰن صاحبہ 1935ء میں مکرم عبدالکریم صاحب کے ہاں گورداسپور میں پیدا ہوئیں اورابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کی۔ 1947میں برصغیر کی تقسیم کے وقت آپ کے والدین سیالکوٹ میں رہائش پذیر ہوئے اور آپ نے باقی تعلیم وہاں حاصل کی۔ 1955میں آپ کی شادی مکرم عبدالرحمٰن بٹ صاحب کے ساتھ ہوئی اور آپ نیروبی منتقل ہو گئیں۔ 13 نومبر 1999 کو آپ کی وفات لندن میں ہوئی۔
آپ چھوٹی عمر ہی سے جماعت کے کاموں میں دلچسپی لیتی تھیں اور نیروبی میں بھی مختلف عہدوں پر خدمت کی توفیق پاتی رہیں۔ چنانچہ ایک عرصہ تک بحیثیت صدر لجنہ نیروبی بھی کام کیا۔ 18سال تک نیروبی میں رہنے کے بعد 1947میں لندن منتقل ہوگئیں۔ یہاں بھی نائب صدر لجنہ یو کے، جنرل سیکرٹری، اور سیکرٹری رشتہ ناطہ یوکے کے علاوہ قائمقام صدر لجنہ کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پائی۔ 1984میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے لندن آنے کے بعد دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سے منسلک ہو گئیں اور حضور کی ڈاک سے متعلق جوابات دینے والی لجنہ کی ٹیم ان کی سرپرستی میں منظم ہوئی اور وفات سے چند ماہ قبل تک یہ کام کرتی رہیں۔ 1997کے جلسہ سالانہ یوکے میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان کے کام کی خصوصی تعریف فرمائی۔
برصغیر کے رہنے والے آپ کو رسالہ مصباح کے حوالہ سے جانتے ہیں۔ آپ مصباح کے لئے باقاعدگی سے لکھنے والوں میں شامل تھیں اور آپ کے مضمون گھریلو تربیتی امور کے موضوع پر خوبصورتی سے روشنی ڈالتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ نے بھی آپ کے مضامین کی تعریف فرمائی اور باقاعدگی سے مضامین بھجوانے کیلئے کہا۔ خدا تعالیٰ نے آپ کو غیرمعمولی ذہانت عطا فرمائی تھی۔ اس بنا پر انتہائی صائب الرائے تھیں چنانچہ 1985ء میں جلسہ سالانہ یو کے کے انعقاد کے موقع پر جبکہ دسمبر میں جلسہ کی تجویز تھی تو آپ نے موسم کی شدت کی بنا پر اپریل میں جلسہ کرنے کی تجویز پیش کی جسے حضور انور نے پسند فرمایا اور جلسہ کا انعقاد اپریل میں ہوا۔
ذاتی طور پر آپ اعلیٰ اخلاق کی حامل اور اوصافِ حمیدہ سے پۡر انتہائی ملنسار اور پۡروقار شخصیت تھیں۔ جو ایک دفعہ ان سے ملتا ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ ہر ایک کیلئے مادرانہ شفقت رکھتی تھیں۔ اور ہر ممکن طریق سے مدد کی کوشش کرتیں۔ تہجد گزار اور صاحب رویا اور کشوف تھیں۔ بے حد دعا گو تھیں اور دعا کی قبولیت سے متعلق پہلے سے بتا دیا کرتیں۔ انفاق فی سبیل اللہ میں بھی سابقون میں شامل تھیں اور ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں۔ بہت سے یتیم طالبعلم ان کی سر پرستی میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ جماعت کے علاوہ دیگرcharities کی بھی حتی المقدور مدد کر تیں۔ توکل علی اللہ کے اعلیٰ مقام پر فائز تھیں اور خلافت سے والہانہ لگاؤ تھا۔ حضرت خلیفہ المسیح الرّابع ایدہ اللہ کے ساتھ ذاتی تعلق تھا۔ حضور بھی ازراہِ شفقت ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ آخری بیماری میں خصوصاً گاہے بگاہے پھول اور پھل بھجواتے رہے اور دعائیں کرتے رہے۔
اپنی جماعتی مصروفیات کے باوجود آپ ایک ذمہ دار بیوی اور شفیق ماں تھیں۔ گھریلو ذمہ داریاں احسن طور سے نبھاتی رہیں اور بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ان کی اعلیٰ تربیت بھی کی۔
وفات سے پانچ ماہ قبل پتے کی نالی کے کینسر کی تشخیص ہوئی۔ اس کے بعد انتہائی صابر رہیں اور راضی برضائے الٰہی نظر آتی تھیں موصیہ تھیں اور وفات کے وقت وصیّت کے حصّہ آمد اور جائیداد دونوں میں فاضلہ رقم موجود تھی۔ 16؍نومبر 1999ء کو قبل از نماز ظہر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہِ شفقت نماز جنازہ پڑھائی اور بروک ووڈ قبرستان کے قطعہ موصیان میں تدفین عمل میں آئی۔