محترمہ سکینہ سیفی صاحبہ
مکرم نسیم سیفی صاحب اپنی اہلیہ محترمہ سکینہ سیفی صاحبہ کا ذکر خیر کرتے ہوئے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍اکتوبر 1997ء میں رقمطراز ہیں کہ میری اہلیہ قادیان میں پیدا ہوئیں اور اسی ماحول میں پرورش پائی اور مڈل تک تعلیم حاصل کی۔ ستمبر 1938ء میں ہم دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے اور اپنے 59 سالہ دور رفاقت میں سے قریباً 17 سال ہم الگ رہے جس دوران زیادہ وقت میں نے افریقہ میں بطور مبلغ گزارا۔
میری اہلیہ نے 1946ء میں باقاعدہ لجنہ اماء اللہ کا کام شروع کیا اور قادیان سے ربوہ شفٹ ہوتے ہوئے جو مختصر عرصہ حافظ آباد میں گزارا تو وہاں بھی لجنہ کا قیام عمل میں لائیں اور لجنہ کی صدر رہیں۔ 1953ء میں نائیجیریا میرے پاس پہنچیں تو وہاں کی لجنہ کو فعال بنانے کے لئے کوشش کرتی رہیں۔ تربیت اور تبلیغ میں بہت کام کیا اور عورتوں کے وفود تبلیغ کیلئے دیہات میں جانے لگے۔ رمضان میں قرآن کریم کا درس دیتیں۔ لجنہ اماء اللہ کے الگ جلسہ سالانہ کا انعقاد بھی شروع کروایا۔ نائیجیریا پہنچنے کے بعد انہوں نے بہت محنت سے انگریزی سیکھی اور جلد ہی روانی کے ساتھ تقریر کرنے اور تحریر پڑھنے کے قابل ہوگئیں۔
مرحومہ مہمان نوازی کے مواقع تلاش کیا کرتی تھیں اور ایک طرح سے نائیجیریا مشن کی میزبان تھیں۔ جو مربیان لیگوس میں جتنا عرصہ بھی مقیم رہتے ان کا کھانا خود تیار کرتیں۔ بعض مربیان کئی کئی سال بھی مقیم رہے لیکن آپ کی مہمان نوازی میں کبھی کمی نہ آئی۔دفتر کے کارکنان گھر آتے تو آپ کی کوشش ہوتی کہ انہیں کھلایا یا پلایا جائے اور آپ انہیں بتاتی تھیں کہ میں تمہیں اپنے بیٹوں کی طرح سمجھتی ہوں۔… عبادت گزار اور منکسرالمزاج تھیں۔ ایک بات کا اکثر ذکر کیا کرتی تھیں کہ خدا تعالیٰ کا ان کے ساتھ ایسا سلوک ہے کہ جب کسی چیز کی خواہش ہوتی ہے اور وہ گھر میں موجود نہیں ہوتی تو اسی دن شام تک وہ چیز کسی نہ کسی جگہ سے آ جاتی تھی۔ بچوں کی تربیت کے سلسلے میں انہوں نے حضرت اماں جانؓ کی یہ بات پیش نظر رکھی کہ پہلے بچے کی بھرپور تربیت کی جائے تو دوسرے بچے اسی کو دیکھ کر اپنے کردار کی تشکیل کرتے ہیں۔ ربوہ میں ایک لمبے عرصے تک بچوں کو قرآن کریم پڑھایا۔ ان کا دستور تھا کہ روزانہ فجر کے بعد تلاوت قرآن کریم کے بعد تجرید بخاری پڑھتیں اور ایسا کرنے میں انہوں نے کبھی ناغہ نہیں کیا۔