محترمہ سید ہ حفیظۃالرحمن صاحبہ

ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ ستمبرو اکتوبر 2006ء میں مکرم میر مبارک احمد صاحب تالپور کے قلم سے اُن کی اہلیہ محترمہ سیدہ حفیظۃالرحمن صاحبہ بنت محترم سید حافظ عبدالرحمن صاحب کا ذکر خیر شائع ہوا ہے جو 18؍ جولائی 2006ء کو نیوجر سی (امریکہ) میں وفات پاگئیں۔
آپ لکھتے ہیں کہ مر حو مہ 1930ء میں کلانور بٹالہ ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم قادیان میں پا ئی اور بورڈ کے امتحان میں ضلع بھر میں اوّل آئیں۔ ہجرت کے بعد اپنے والدین کے ہمراہ لاہور آگئیں جہاں لجنہ کی تنظیم میں 1950ء تک جنرل سیکرٹری کے فرائض سرانجا م دیئے۔ اس دَور میں لجنہ لاہور نے جلسہ ہائے سیرۃالنبیؐ کے انعقاد میں بنیادی کام انجام دینے پر حضرت مصلح موعودؓ کی خاص خوشنودی حاصل کی۔ 1951ء میں حضو رؓ نے ہمارا نکاح مسجد مبارک ربوہ میں پڑھایا۔ شادی کے بعد ہم کراچی آگئے کیونکہ میں یہا ں سرکاری ملازمت کرتا تھا۔ کچھ عرصہ بعد میرے والد کی وفات ہوئی تو ہمارے مالی حالات متأثر ہوگئے تو میری اہلیہ نے میرا ہاتھ بٹانے کے لئے میٹرک کے طلبہ کیلئے ایک کوچنگ سینٹر شروع کیا جس سے ہمیں کافی مالی آسودگی حاصل ہوئی کیونکہ میں تو اپنی ساری تنخواہ والدہ اور بہن بھائیوں کو روانہ کردیتا تھا۔ میرے دو بھائی پروفیشنل تعلیم حاصل کررہے تھے اور اُن کی فیس ادا کرنے کی ذمہ داری مجھ پر تھی۔ مجھے فخر ہے کہ میری اہلیہ نے اِس فرض کو ادا کرنے میں میرا پورا پورا ساتھ دیا۔ ایک بار ایک بھائی کو رقم کی فوری ضرورت پڑی تو میری اہلیہ نے اپنے آویزے بیچ کر ضرورت پوری کی۔ انہوں نے اپنے اور میرے گھر والوں میں کبھی فرق نہ کیا ۔ اپنے سسرال کی ہمیشہ عزت و تکریم کی۔ مختلف شہروں میں میری پوسٹنگ ہو جاتی تھی تو سارے کام میری اہلیہ بہ حُسن و خوبی سرانجام دیتی تھیں۔
لجنہ کی تنظیم کے لیے انہوں نے انتھک کام کیا۔ قرآن کریم کی کلاسز کا ا ہتما م کیا۔ 1951-55ء کے دوران لجنہ کراچی میں جنرل سیکرٹری رہیں۔ 1960ء میں میری پوسٹنگ حیدرآباد ہوگئی تو یہ ایک گرلز سکول میں پرنسپل کے فرائض سرانجام دینے لگیں۔ 1966ء میں میرے ساتھ ہی کراچی اور پھر لاہور چلی آئیں۔ اُنہوں نے شادی کے بعد بھی اپنی تعلیم جاری رکھی اور B.A., B.Ed. اور M.A. کیا۔M.A. میں یونیورسٹی میں اوّل آئیں۔ 1968ء میں لاہور میں ایک گرلز سکول شر وع کیا۔ 1974ء میں میری تبدیلی حیدرآباد ہوئی تو انہوں نے جنرل سیکرٹری لجنہ حیدرآباد اور بعد میں صدرلجنہ سندھ و حیدرآباد کے طور پر بھی بہت عمدہ کام کی توفیق پائی۔ اسی دوران انہوں نے سندھ یونیورسٹی میںPh.D. شروع کی۔ ان کا مقالہ سیرت ِرسولﷺپر تھا۔ مقالہ مکمل ہونے کے بعد ان کے سپروائزر کو یہ علم ہو گیا کہ وہ جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتی ہیں لہٰذا ان کو ڈگری دینے میں بہت رکاوٹیں ڈالی گئیں۔ اِس بارہ میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں عرض کیا گیا تو آپؒ نے ارشاد فر ما یا کہ ’’اپنے مقالے کو کتاب کی شکل میں شائع کرواؤ، ایک وقت آئے گا کہ یہ لوگ خود تمہارا مقالہ مانگنے آئیں گے، تم آسمان پر Ph.D. ہوچکی ہو‘‘۔ بعد میں آپ نے نو کتب تصنیف کیں جن میں سیرت کی کتاب ’’تخلیق الاول‘‘ اور حضرت مسیح موعود ؑ کے قصیدہ پر مبنی ’’آئینۂ ربوبیت‘‘ کو آپ اپنی زندگی کا اثاثہ کہتی تھیں۔
1981میں حیدرآباد سے کراچی آکر اپنے حلقہ میں سیکرٹری تعلیم، صدر اور پھر نگران قیادت کے طور پر فرائض سرانجام دیئے۔ آپ کے سیرت النبیؐ کے اجتماعات کا سلسلہ تو غیرازجماعت خواتین میں بھی بہت مقبول ہوا جس کا ذکر حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒنے قادیان کے جلسہ سالانہ میں لجنہ کر اچی سے ایک ملاقات کے دوران فرمایا۔ حضور نے فرمایا: ہماری ایک بہترین مقررہ سے غیرازجماعت خواتین نے پوچھا کہ آپ سیرت رسولﷺ پر اتنا خوب بولتی ہیں ہمارے پاس بھی عید میلادالنبیؐ کے موقع پر تشریف لائیں اور تقریر کریں اور یہ بھی کہ آپ کیا لیتی ہیں؟ (یعنی آپ کا معاوضہ کیا ہے) جس پر ہماری مقررہ نے کہا کہ ہم سیرتﷺ پر تقریر کرنے کا معاوضہ لیتے نہیں بلکہ پیسے دے کر اپنی بات بتاتے ہیں۔
اُن کی منظم کردہ قرآن کریم کی کلاسز بھی جماعت کی خواتین کے ذریعے گھر گھر روحانی روشنی پھیلانے کا موجب بنیں۔ ا ِس دوران اُن کی بہترین تربیتی کُتب شائع ہوئیں جن میں ’قرأۃالعین‘، ’دستک‘، ’محبوبات‘ اور ’ازالۃالقید‘ شامل ہیں۔ یہ کُتب جماعت کی خواتین وحضرات کے لئے مشعل راہ ہیں اور ان کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرا بعؒ نے فرمایا کہ: ’’آپ نے تو کتابوں سے ایک باغ و بہار لگائی ہوئی ہے، آپ کو مبارک ہو‘‘۔ انہوں نے مسیح محمدی کی غلامی میں جہاد بالقلم کی راہ اختیار کی۔ اپنی پہلی تصنیف کی شروعات میں ہی اُنہوں نے خواب دیکھا تھا کہ ایک بارُعب آواز فرماتی ہے: ’’حضرت مسیح مو عودؑ کا ہاتھ پکڑ کر تم ہر شہر کی سیر کرسکتی ہو‘‘ ۔
نو مبر 1994ء میں اُنہیں عارضۂ قلب کی وجہ سے لجنہ اور تصنیف کے کاموں سے فرصت لینی پڑی مگر انہوں نے اپنی عبادتوں کو ہمیشہ سرسبز رکھا۔ 1997ء میں انہوں نے دوبارہ ہمت کی اور شہدا ء کو ایک بار پھر اپنے بہترین الفاظ کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے ’’نگینے لوگ‘‘ کے دونوں حصے تصنیف کئے۔
حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے قبولیت دعا کے واقعات میں درج ہے کہ ایک لڑکی کے والد نے اپنی بیٹی کی F.A. میں کامیابی کے لئے آپؓ سے دعا کی درخواست کی تو آپؓ نے اُسی وقت لمبی پُرسوز دعا کے بعد فرمایا کہ انشاء اللہ بچی کامیاب ہو جائے گی۔ پھر یہ بچی حفیظۃالرحمٰن ضلع بھر میں فلاسفی کے امتحان میں اوّل آئی۔ میری اہلیہ نے اپنی بیٹیوں کی بہترین تعلیم و تربیت کی اور یوں آنحضورﷺ کی حدیث کے مطابق بیٹیوں کو بہترین تعلیم وتربیت دے کر وہ جنت کی نوید پاگئیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں