محترمہ صاحبزادی امتہ النصیر بیگم صاحبہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15نومبر 2011ء کی ایک خبر کے مطابق حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی پوتی اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ اور حضرت سارہ بیگم صاحبہ کی بیٹی محترمہ صاحبزادی امۃالنصیر بیگم صاحبہ اہلیہ محترم پیر معین الدین صاحب 12نومبر2011ء کو ربوہ میں بعمر 82 سال انتقال فرماگئیں ۔ تدفین بہشتی مقبرہ کی اندرونی چار دیواری میں ہوئی ۔ آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی بہن اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی خالہ محترمہ تھیں ۔ آپ نے پسماندگان میں چار بیٹیاں اور ایک بیٹا یادگار چھوڑا ہے۔
محترمہ صاحبزادی امۃالنصیر بیگم صاحبہ 13؍اپریل 1929ء کو قادیان میں پیدا ہوئیں ۔ مڈل تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد دینیات کلاس میں دینی علوم سے بہرہ ور ہوئیں ۔ آپ بہت چھوٹی تھیں کہ آپ کی والدہ حضرت سارہ بیگم صاحبہ بنت حضرت عبدالماجد بھاگلپوری کی وفات ہو گئی۔ اسی لئے آپ کی پرورش حضرت اماں جانؓ نے کی اور بہت محبت دی۔ آپ کو بھی حضرت امّاں جان سے بہت محبت تھی ۔ 1949ء میں آپ کو حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت اماں جانؓ کے ساتھ اُن کی گاڑی میں ربوہ آنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ آپ اسے اپنی زندگی کا یادگار واقعہ قرار دیتی تھیں ۔
مہمان نوازی اور غریبوں کا خیال رکھنا محترمہ امۃالنصیر بیگم صاحبہ کے بنیادی اوصاف تھے۔ آپ بہت صابر ، اعلیٰ اخلاق کی مالک، مہمان نواز اور صغر سنی سے ہی خدمت دین کا شوق رکھتی تھیں ۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر 13سال کی عمر میں منتظمہ دارالمسیح کا فریضہ سرانجام دیا۔ سیکرٹری ناصرات قادیان بھی رہیں ۔ ہجرت کے بعد رتن باغ اور پھر ربوہ میں لجنہ کی خدمات بجا لاتی رہیں ۔ مسجد مبارک ربوہ کی سنگ بنیاد کی تقریب میں اینٹ پر دعا کرنے والی خاندان حضرت اقدسؑ کی خواتین میں شامل تھیں ۔ ربوہ کے ابتدائی دَور سے ہی اپنے محلہ میں لجنہ کی خدمت میں مصروف رہیں ۔ 1953ء تا 1997ء تک (سات سال کے وقفہ کے علاوہ) کُل 37سال بطور صدر لجنہ حلقہ خدمات انجام دیں ۔ 1973ء سے 2007ء تک لجنہ کی مجلس عاملہ ربوہ میں خدمت کی توفیق پاتی رہیں ۔ اس طرح آپ 65 سال سے زائد عرصہ تک لجنہ اماء اللہ کے مختلف شعبہ جات میں خدمت میں مصروف رہیں ۔
آپ کی والدہ حضرت سارہ بیگم صاحبہ کا تعلق بھاگلپور کے ایک معزز اور علمی خاندان سے تھا۔ جب وہ فوت ہوئیں تو آپ کی عمر تین سال تھی۔ ان کی وفات پر اپنے بھائی کے سمجھانے کے بعد خاموش ہو گئیں ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ان کی اس کیفیت اور صبر کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ مجھے یقین ہو گیا کہ امۃالنصیر موت کی حقیقت کو جانتی ہے۔ اس کا فعل صابرانہ فعل ہے اور وہ اپنی ماں کی سچی یادگار ہے۔ وہ حقیقت کو جانتے ہوئے اپنے دل پر قابو پائے ہوئے ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کے لئے ایک لمبی دعا بھی تحریر فرمائی جس کا آغاز اس طرح ہوتا ہے: اللہ تعالیٰ اس ننھی سی کلی کو مُرجھا جانے سے محفوظ رکھے۔ وہ اس چھوٹے سے دل کو اپنی رحمت کے پانی سے سیراب کرے اور اچھے خیالات اور اچھے افکار اور اچھے جذبات کی کھیتی بنائے جس کے پھل ایک عالم کو زندگی بخش، ایک دنیا کے لئے موجب برکت ثابت ہوں …
حضرت مصلح موعودؓ نے 26دسمبر 1951ء کو آپ کا نکاح ہمراہ محترم پیر معین الدین صاحب ولد محترم پیر اکبر علی صاحب ایک ہزار روپے حق مہر پر پڑھا۔ خطبہ نکاح میں حضور نے فرمایا کہ احباب کو معلوم ہو گاکہ میں اپنی لڑکیوں کا نکاح صرف واقفین زندگی سے کر رہا ہوں اور اس رشتہ میں بھی میرے لئے یہی کشش تھی کہ لڑکا واقف زندگی ہے۔
محترم پیر معین الدین صاحب ایک علمی شخصیت کے مالک خادم سلسلہ تھے۔ انہوں نے دیگر جماعتی خدمات کے علاوہ قرآن کریم کا وسیع مطالعہ کیا اور اس کے معارف اور خزائن کے بارہ میں تحقیقی اور علمی کام کرکے کتب تحریر کیں ۔ ان کی وفات 12ستمبر 2006ء کو بعمر 81سال ہوئی۔
حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو مختلف مواقع پر آنے والی خوابوں اور رؤیا میں دیکھا۔ چنانچہ ’’رؤیا و کشوف سیدنا محمود ‘‘ میں رؤیا نمبر 507,407اور 608 میں خاص طور پر آپ کا ذکر موجود ہے۔ 11دسمبر 1954ء کے رؤیا کے بارہ میں حضور فرماتے ہیں کہ ’’انہوں (حضرت سارہ بیگم صاحبہ ۔ ناقل) نے کہا کہ آپ تو مجھ سے خفا ہو گئے ہیں ۔ میں نے کہا تم نے تو مجھے چھیرو (امۃ النصیر) جیسی بیٹی دی ہے۔ میں خفا کیسے ہو سکتا ہوں ‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں