محترمہ صاحبزادی امۃالرشید بیگم صاحبہ کی یادیں
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍اکتوبر 2002ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی بیٹی محترمہ صاحبزادی امۃالرشید بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم میاں عبدالرحیم احمد صاحب کی بعض یادداشتیں بعنوان “دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تُو” شامل اشاعت ہیں۔
آپ بیان کرتی ہیں کہ ہماری والدہ حضرت سیدہ امۃالحئی بیگم صاحبہؓ کی وفات کے بعد ہم حضرت امّ طاہرؓ کی نگرانی میں آئے تھے اور مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ مَیں ان کی بیٹی نہیں ہوں۔ جب اُن کے بچے ہوئے تب بھی انہوں نے ہمیں ہی مقدم رکھا اور بہت پیار دیا۔ پھل، مٹھائی وغیرہ سب کو ایک جتنی ملتی، کبھی احساس نہیں ہوا کہ وہ ہماری حقیقی ماں نہیں۔ مَیں چھوٹی بہنوں کو بھی ڈانٹ لیا کرتی تھی لیکن انہوں نے کچھ فرق نہیں سمجھا۔ حضرت امّ طاہرؓ اپنے والد صاحب، جنہیں ہم شاہ جی کہتے تھے، کے ہاں جاتیں تو ہم بھی ساتھ جاتے۔ وہ ہم سے بہت پیار کرتے اور ہاتھ اٹھاکر دعا کرتے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی اولاد ہیں۔
بچپن میں اکثر سر میں درد ہوتا تو مَیں حضرت امّ طاہرؓ کے پاس چلی جاتی۔ ایک دفعہ آپؓ خود بہت بیمار تھیں کہ ہل بھی نہ سکتی تھیں اور مجھے بھی سر میں شدید درد تھا تو مَیں اُن کی ٹانگوں پر سر رکھ کر اُن سے چمٹی رہی۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے مجھے ڈانٹا کہ وہ خود بیمار ہیں لیکن مَیں پھر بھی وہاں سے نہیں ہلی۔ میری شادی کے بعد میرے میاں کا آپؓ بہت خیال رکھتیں اور انہیں اپنا بیٹا کہتیں اور سمجھتیں۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی بیگم حضرت امّ مظفر سرور سلطان جہاں صاحبہ ؓ بہت مخیر اور نہایت سادہ تھیں۔ خود پٹھان تھیں اور پڑھنے کے لئے قادیان آنے والے پٹھان بچوں کا خاص خیال رکھتیں۔ بورڈنگ میں پڑھنے والے بچوں کا بھی بہت خیال رکھتیں۔ فارسی بولتی تھیں۔ قادیان کے لوگوں سے بہت پیار بڑھایا ہوا تھا۔ کئی یتیم بچے پالے۔ اپنے ہاتھ سے کام کرتیں اور بہت صفائی پسند تھیں کہ مزہ ہی آجاتا۔ کسی کی ذاتی زندگی میں دخل نہ دینے کا سبق آپؓ نے حضرت اماں جانؓ سے سیکھا تھا۔ آپؓ کے حسن اخلاق سے آپؓ کے میکے والے مبائعین میں شامل ہوئے۔
حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی بیگم حضرت بُوزینب صاحبہؓ بہت غریب پرور اور سادہ تھیں۔ سب سے حسن سلوک کرتیں۔
حضرت امّ وسیم جب نئی نئی آئی تھیں تو صرف عربی ہی بولتی تھیں۔ حضرت امّ طاہرؓ سے اپنی ساری باتیں کرتیں اور آپؓ بھی بڑی بہنوں کی طرح اُن کا بہت خیال رکھتیں۔ اُن کے بچوں کی پیدائش کے وقت بھی حضرت امّ طاہر اُن کے پاس رہیں۔ حضرت امّ وسیم بہت غریب پرور اور ملنسار، منکسرالمزاج تھیں۔ کبھی دولت کی پرواہ نہ کی، اپنے ہاتھ سے سارے کام کرتیں۔ بہت صفائی پسند تھیں۔ جتنی مال و دولت (ہیرے جواہرات) آپ کو شادی کے وقت ملی ساری مستحقین میں تقسیم کردی، اپنے لئے بھی نہ رکھی۔
حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی سب بیویوں اور بچوں کا جیب خرچ مقرر کیا ہوا تھا۔ حتیٰ کہ نوکروں کا بھی خرچ مقرر تھا۔ کپڑے وغیرہ گھر میں ہی منگوالئے جاتے۔ سفر میں بھی باری باری لے کر جاتے۔ اگر کوئی بیوی بیمار ہوتی تو اُسے بھی ہمراہ لے جاتے۔ سندھ کے دورے پر بھی بیویاں باری باری جاتیں۔ ہم چونکہ سندھ میں زمینوں کی دیکھ بھال کے لئے وہیں رہتے تھے اس لئے جب حضورؓ وہاں تشریف لاتے تو تین دن ہمارے مہمان ہوتے اور پھر ہم حضورؓ کے مہمان ہوتے۔ روزانہ مختلف جماعتوں سے مہمان ملاقات کے لئے آیا کرتے۔ جمعہ کے دن ڈیڑھ دو سو تک افراد ہوجاتے۔ ایسے میں ایک لنگر جاری ہوجاتا جس کا خرچ تو حضورؓ ہی اٹھاتے اور انتظام میرے میاں کرتے۔ پانی وہاں کیچڑ کی طرح کا ہوتا تھا جو بڑے بڑے مٹکوں میں پھٹکڑی ڈال کر رکھا جاتا۔ جب مٹی نیچے بیٹھ جاتی تو دوسرے مٹکے میں احتیاط سے نکالا جاتا، پھر فلٹر کیا جاتا اور پھر ابال کر پینے کا پانی الگ کیا جاتا۔ جس سال حضرت امّ ناصرؓ کی باری ہوتی ، وہ سال بڑا بابرکت ہوتا۔ وہ راشن چیک کرتیں اور قبل از وقت میرے میاں کو بتا دیتیں کہ فلاں چیز چار دن کی رہ گئی ہے۔ اباجانؓ کا بہت زیادہ خیال رکھتیں۔ میرے خسر جو میرے پاس ہی رہتے تھے، اُن کا بھی بہت خیال رکھتیں۔