محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم صوفی نذیر احمد صاحب

جماعت احمدیہ امریکہ کے اردو ماہنامہ ’’النور‘‘ دسمبر 2010ء میں مکرمہ طیبہ منصور چیمہ صاحبہ کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں انہوں نے اپنی والدہ محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم صوفی نذیر احمد صاحب کا تفصیلی ذکرخیر کیا ہے۔
مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ 14جولائی2010ء کو وفات پاگئیں۔ آپ بہت صابر، راضی برضا رہنے والی اور مستجاب الدعوات خاتون تھیں۔ ہم چھ بہن بھائیوں اور بغرضِ تعلیم آنے والے متعدد رشتہ دار بچوں کے ساتھ آپ ربوہ میں رہتی تھیں جبکہ ہمارے والد ہماری دوسری والدہ کے ساتھ محمد آباد سندھ میں رہتے تھے اور وہاں کاروبار کرتے تھے۔ امّی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی خاطر ربوہ آئیں اور بہت کم پیسوں میں بہت ہی سلیقے کے ساتھ گھر چلاتی رہیں۔ اپنے دو بیٹوں (مکرم محمد جلال شمس صاحب انچارج ترکی ڈیسک لندن اور مکرم منیر احمد جاوید صاحب پرائیویٹ سیکرٹری) کو جامعہ احمدیہ میں تعلیم دلوائی۔ تعلیمی و دیگر مشکلات میں نہایت درد سے بچوں کے لئے دعا کرتیں اور اُن کا حوصلہ بڑھاتیں۔
آپ پانچ بھائیوں کی اکلوتی اور لاڈلی بہن تھیں۔ خود کسی سکول کی سند یافتہ نہ تھیں لیکن آپ کی والدہ اور بڑے بھائی تدریس کے شعبہ سے وابستہ تھے اور اُن کی تربیت کی بدولت علم، ہنر اور سلیقہ میں نمایاں مقام رکھتیں تھیں۔ خدا پر کامل توکل تھا اور خلافت کے ساتھ بے انتہا عشق تھا۔ آپ کی زندگی میں بے شمار مسائل آئے اور ایسے ہر موقع پر آپ اپنے مولا کے حضور سجدہ ریز ہوئیں تو کبھی خدا نے لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّ حۡمَۃِاللّٰہ کے الفاظ میں تسلی دی اور کبھی اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کے ساتھ دل کو تسکین دی۔ اور واقعتاً دنوں میں ہی پریشانیاں دُور ہوگئیں۔
ایک دفعہ میرا بیٹا بہت بیمار ہوگیا ۔ ڈاکٹرز کے مطابق حالت تشویشناک تھی۔ امی بھی ظاہر ہے بہت پریشان تھیں۔ آپ مجھے کہتیں کہ میں دعا کرتی ہوں تو میرا دل مطمئن ہو جاتا ہے اور پھر کہا: یاد رکھو کہ نہ بیماری میں موت ہے اور نہ صحت میں زندگی ہے، یہ سب خدا کے فضل سے ہوتا ہے۔ خلیفہ وقت کی دعائیں اس بچے کے ساتھ ہیں۔ انشاء اللہ یہ صحتمند ہوجائے گا اور تم اس کی خوشیاں دیکھو گی۔اور پھر حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی دعاؤں سے خدا تعالیٰ نے بچہ کو معجزانہ شفا دی۔

ڈاکٹر محمد جلال شمس صاحب

میری باجی کو پاکستان میں بریسٹ کینسر کی تکلیف ہوئی تو امی لندن میں تھیں۔ امی کو یہ شک تھا کہ شاید دوسرے لوگ صحیح صورتحال آپ کو نہیں بتا رہے۔ چنانچہ آپ نے دعاؤں پر زور دینا شروع کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو خواب میں وہ ڈاکٹر بھی دکھادیئے جنہوں نے آپریشن کیا تھا اور بیماری سے شفایابی کی خوشخبری بھی دیدی۔
آپ مجھے بتایا کرتی تھیں کہ میری پیدائش سے پہلے ایک دفعہ آپ کے گردہ میں پتھری ہو گئی اور پیشاب میں خون آنے لگ گیا ۔ آپ ہسپتال میں داخل تھیں اور ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ اس بیماری کا علاج صرف آپریشن ہے لیکن یہ مریضہ بہت کمزور ہے ۔ اس پر آپ نے بہت گریہ وزاری سے دعا کی کہ خدایا میرے بچے بہت چھوٹے ہیں تو ان کے لئے ہی مجھے صحت اور زندگی دیدے اور معجزانہ طور پر آپریشن سے مجھے بچا لے ۔ دعا کرتے ہوئے آنکھ لگ گئی تو یہ شعر زبان پر جاری ہوگیا:

بارگاہ ایزدی سے تو نہ یوں مایوس ہو
مشکلیں کیا چیز ہیں مشکل کشا کے سامنے

پھر آپ کو خواب میں دو ڈاکٹر دکھائے گئے جن میں سے ایک کہتا ہے آپریشن ہو نا چاہیے اور دوسرا کہتا ہے نہیں ہونا چاہیے۔چنانچہ اگلے دن ایسے ہی ہوا کہ دو ڈاکٹر راؤنڈ پر آئے۔ دونوں ویسے ہی بحث کرتے رہے اور پھر آپ سے پوچھا کہ آپ کا کیا خیال ہے۔ آپ نے کہا کہ مَیں تو اپنے مولا سے بس اس کا فضل مانگ رہی ہوں۔ اس پر ڈاکٹر تو چلے گئے لیکن تھوڑی دیر بعد ہی آپ کو پیشاب کی حاجت ہوئی اور ایک بڑی سی پتھری خودبخود نکل گئی۔
آپ کی ایک قابل تقلید نیکی یہ ہے کہ اپنی ایک بھتیجی اور ابو جان کی بھانجی کو تین بچوں سمیت، بیوہ ہونے پر اپنے غیر شادی شدہ بیٹے کے ساتھ بیاہ دیا اور اُس کے بچوں کو حقیقتاً دادی کا پیار دیا۔ اُن بچوں کے سکولوں میں تعلیم سے لے کرنماز اور قرآن پڑھانے تک کے سب کام اپنے ذمہ لے لئے۔ اسی طرح کئی یتیم اور مسکین بچوں کو پالا پوسا اور تربیت کی۔ اور اُن کی آپ کے اپنے بچوں سے کوئی چپقلش ہوتی تو ہمیشہ دوسرے بچوں کی دلجوئی کرتیں۔ یہ بچے بیمار ہوتے تو دن رات اُن کی تیمارداری میں لگ جاتیں اور کہتیں کہ ان کے لئے تو مَیں خدا کے حضور جوابدہ ہوں۔ آپ کا حسن سلوک اپنے سب عزیزوں سے ایسا تھا کہ آپ کی وفات پر آپ کی نندیں بھی کہہ رہی تھیں کہ آج ہماری ماں ہم سے جدا ہو گئی ہیں۔
چونکہ آمد بہت معمولی تھی۔ کئی بچے گھر میں پلتے تھے۔ آپ پرانے کپڑوں سے نہایت خوبصورت بستر اور چیزیں (بستے وغیرہ) بناتیں۔ چارپائیاں تک خود بُن لیتیں۔ کروشیا کا کام، آزار بند بنانا غرض کونسا کام تھا جو آپ کو نہ آتا تھا۔ کئی عورتوں کو سلائی کڑھائی سکھائی۔ کئی بچیوں کے جہیز تیار کرنے میں مدد کی اور بدلہ میں کبھی کوئی خواہش نہ کی۔ ہماری دوسری والدہ کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک کی تلقین کرتیں اور خود ان کی بیماریوں میں ان کی ہر طرح تیمارداری کرتیں۔
آپ خود بھی اکثر بیمار رہتی تھیں۔گردے میں ورم ہوجاتی تھی۔ پتے میں پتھری تھی جس کا پھر آپریشن بھی ہوا۔ جسم میں دردیں بہت ہوا کرتیں جس کے لئے اکثر رات کو مالش اور ٹکور کرتیں۔ اس کے باوجود بہوؤں کے ساتھ ایسا حسن سلوک تھا کہ وہ کہتی ہیں امی نے واقعتاً ہمیںماں کا پیار دیا۔ گندم صاف کرنے یا رضائیاں سینے کا کام کبھی بہوؤںکو نہ دیتیں بلکہ خود ہی کرتیں۔ اُن کے بچوں کو پالنے میں ان کا پورا پورا ساتھ دیتیں۔ اپنی بہوؤں سے ہمیشہ بڑے پیار کا ایسا تعلق رہا کہ محلے میں اکثر لوگوں کو یہ پتہ ہی نہ لگتا تھا کہ یہ ساس بہو ہیں یا ماں بیٹی ہیں۔
ایک رات میری بڑی بھابھی کے سر میں شدید درد تھی تو امی نے اُن کا سر اپنی گود میں رکھ کر دبانا شروع کیا یہاں تک کہ بھابھی سو گئیں لیکن آپ اسی طرح بیٹھی رہیں ۔حتیٰ کہ رات کسی وقت جب بھابھی کی اچانک آنکھ کھلی توانہوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ امی آپ ایسے کیوں بیٹھی ہیں؟ تو امی نے بتایا کہ بیٹا تم سو گئی تھی تو میں اس لئے بیٹھی رہی کہ میرے ہلنے سے کہیں تمہاری آنکھ نہ کھل جائے۔
اسی طرح میری چھوٹی بھابھی کے ہاں جب بیٹی پیدا ہوئی توامی ان کے کپڑے اپنے ہاتھ سے دھوتی رہیں ۔ آپ نے اس وقت میری یہ ڈیوٹی لگائی کہ تم پانی ڈالو۔ اب میرا دل کرے کہ اس طرح کے کپڑے کاش امی پھینک دیں یا کسی سے دھلوا لیں۔ میں بہت منہ بنا رہی تھی لیکن امی بضد تھیں کہ نہیں میری بچی کے کپڑے ہیں یہ مَیں نے خود اپنے ہاتھ سے دھونے ہیں ۔چاروناچار مجھے پانی ڈالنا ہی پڑا اور امی نے وہ کپڑے دھو کر چھوڑے ۔
امی کواگر کسی سے کچھ دکھ بھی ملے تو بھی آپ نے کبھی کسی سے شکوہ نہیں کیا بلکہ خدا کے حضور جھکتیں اور مدد مانگتیں اور ہمیں بھی یہی تلقین کرتیں۔ 2002ء میں میرے بڑے بھائی ڈاکٹر محمد جلال شمس صاحب ترکی میں اسیر راہ مولیٰ بنے تو ہم پریشانی میں امی کو فون کرتے ۔ آپ بڑے سکون سے کہتیں کہ میں تو بالکل پریشان نہیں ہوں کیونکہ میرا بچہ خلیفہ وقت کے حکم پر خدمتِ دین کے لئے گیا ہے اور انشاء اللہ وہاں سے کندن بن کر نکلے گا۔ (حالانکہ امی کے چار بچے بچپن میں وفات پاچکے تھے)۔
امی جان چندوں کی ادائیگی بہت زیادہ فکر سے کرتیں۔ نماز پنجوقتہ التزام سے ادا کرتیں ۔آخر وقت تک نماز تہجد ادا کرتی رہیں۔ رمضان میں دو سے تین دفعہ قرآن کریم کا دَور مکمل کرتیں۔ امی جان کی یہ بڑی خوبی تھی کہ اپنے بچوں کے بچوں کے ساتھ ایسا دوستانہ تعلق تھا کہ ہر بچہ امی کے ساتھ تقریباً اپنی ہر بات شیئر کرتا۔ میرے بچوں کی تربیت میں تو بہت زیادہ حصہ میری امی کاہے۔اگر کبھی بچہ کوئی بات نہ مان رہا ہوتاتو امی علیحدگی میں اس طرح سے کچھ وقت اس بچے کے ساتھ گزارتیں کہ کچھ ہی لمحوں میں نہ صرف وہ بچہ بدل چکا ہوتا بلکہ اپنی غلطی پر شرمندہ بھی ہوتا تھا۔ سب بچوں میں جماعتی کاموں کا شوق پیدا کرتیں ۔نماز کی پابندی کی عادت اتنے احسن انداز میں ڈالتیں کہ بچہ نمازوں کا عادی ہو جاتا ۔قرآن کریم کی روزانہ تلاوت پر زور دیتیں ۔ آپ کو اپنے بھائیوں اور ان کے بچوں کے ساتھ عشق کی حد تک محبت تھی۔
جلسہ سالانہ کے مہمانوں کا بہت خندہ پیشانی سے استقبال کرتیں۔ اکثر بہت بیمار رہتی تھیںاور معدہ میں السر کی بھی تکلیف ہو گئی تھی۔ پھر انتہائی مالی تنگی کا زمانہ بھی تھا لیکن پھر بھی ایک مہینہ پہلے ہی جلسہ کے مہمانوں کی تیاریاں شروع کر دیتیں ۔جب مہمانوں کی تعداد بہت بڑھ جاتی تو صحن میں چھولداری لگواتیں اور ہمیشہ دوسروں کو آرام سے سلا کر خود جوتیاں ہٹا کر بچا کھچا بستر بچھا کر سوجاتیں اور صبح سب سے پہلے اٹھ کر وضوکے لئے پانی گرم کرتیں اور پھر نماز سے فارغ ہو کر پانی بھرنا شروع کر دیتیں جو کہ روزانہ مقررہ وقت پر آیا کرتا تھا۔
ایک جلسہ سالانہ پر نانبائیوں کی ہڑتال کی وجہ سے گھروں میں روٹیاں پکانے کا حکم ملا تو امّی نے بھی یہ سعادت حاصل کی۔ فوجیوں کے لئے صدریاں سی کر دینے کا حکم آیاتو وہ بھی سی کر دِیں۔ جب حضور ؒنے مریم شادی فنڈ کی تحریک فرمائی تواپنی ساری چوڑیاں اس میں پیش کر دیں۔ وفات سے پہلے بھی بیٹوں کو نصیحت کی کہ فلاں فلاں جگہ میرے پیسے پڑے ہیں وہ سیدنا بلالؓ فنڈ میں پیش کردینا۔
امی کی وفات پر ایک جرمن عورت نے روتے ہوئے افسوس کیا اور بتایا کہ مَیں اور آپ کی امی الگ مذہب ، کلچر اور زبان ہونے کے باوجود ایک تھیں اور وہ میری بہت گہری سہیلی تھیں ۔
میرے بھائی کے ایک بچپن کے دوست نے امّی کے بارہ میں کہا کہ اُن کی زندگی ان آیات کی مانند تھی کہ نہ توتیرے ربّ نے کبھی تجھے ترک کیا ہے اورنہ ہی کبھی اکیلے چھوڑا ہے۔ دیکھ تو سہی کہ تیرے پیچھے آنے والی ہر گھڑی پہلے سے بہتر ہے اور ضرور تیرا ربّ تجھے وہ کچھ دے گا جس پر تو خوش ہوجائے گا۔ (سورۃالضحیٰ)
زندگی کے آخری25 سال امی جان اور ابو جان نے اکٹھے گزارے ۔اس عرصہ میں آخر تک امی نے ابو جان کی بھرپور خدمت کی۔ جب تک صحت رہی ابو جان کے کپڑے تک خود سیتی تھیں۔ امی نے بیماری میں بھی کبھی یہ خواہش نہیں کی کہ میرے واقفین زندگی بچے میرے پاس آئیں۔ لگن تھی تو بس یہی کہ اللہ تعالیٰ بچوں کو دین کی خدمت کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ آخری بیماری میں بھی جو کہ دو ہفتوں پر محیط تھی انہوں نے یہ خواہش بالکل نہیں کی کہ میرا بیٹا منیر احمد جاوید چھٹی لے کر آجائے ۔ وہ صحیح معنوں میں عہد بیعت اور لجنہ کے عہد کو نبھانے والی ایک ماں تھیں۔
تحدیث نعمت کے طور پر امّی پر خلفاء کی شفقت کے حوالہ سے بیان کرتی ہوں کہ ہمارے بچپن میں ایک دفعہ امی جان کی طبیعت کافی خراب تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے محترم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کو پیغام بھیجا کہ جلال شمس کی والدہ کا مکمل چیک اپ کروائیں اور ان کی دوائیوں کا خیال رکھیں اور پھر فزیو تھراپسٹ کو روزانہ گھر بھجوانے کا بھی انتظام فرمایا۔
اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جب جلال شمس صاحب کی فیملی کو 1985ء میں لندن بلانے کی ہدایت فرمائی تو یہ ارشاد بھی فرمایا کہ ان کی والدہ کو بھی ساتھ ہی بھجوا دیں ۔ اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے امی جان کے دل کی خواہش کو بغیر کسی درخواست کے خود ہی پورا فرما دیا۔
امّی کی وفات پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ میں بڑے پیار سے ان کا ذکر فرمایا اور نماز جنازہ غائب پڑھائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں