محترمہ محمودہ ضیاء صاحبہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍اگست 2010ء میں مکرم ضیاء الدین حمید ضیاء صاحب نے اپنی اہلیہ محترمہ محمودہ ضیاء صاحبہ کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترمہ محمودہ ضیاء صاحبہ 7 مارچ 2006ء کی شام وفات پاگئیں۔ آپ حضرت حکیم چراغ الدین صاحبؓ کی پوتی، حضرت منشی عبدالحق صاحبؓ کاتب کی بیٹی اور مکرم ابوالمنیر نورالحق صاحب کی بہن تھیں۔
وفات کے روز مرحومہ نے وہ قمیص پہن کر نماز تہجد ادا کی جو حضرت امّ ناصر صاحبہؓ نے ایک خواب کی بِنا پر آپ کو عطا فرمائی تھی۔ پھر دیر تک ذکر الٰہی میں مصروف رہیں، نماز فجر ادا کرکے تلاوت قرآن کریم کرتی رہیں اور دن کے 10 بجے نماز اشراق کے نوافل ادا کئے۔ ظہر و عصر کی نمازیں پڑھنے کے بعد میرے ساتھ مارکیٹ گئیں۔ واپسی پر گھر کے قریب پہنچ کر کہا کہ میرا آخری وقت آگیا ہے اور پھر قبلہ رخ دو زانو زمین پر بیٹھ کر دَم دے دیا۔ وہ زندگی میں اسی دعا کے لئے کہا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو کسی کا محتاج نہ کرے اور میں چلتی پھرتی اپنے مولا کے حضور حاضر ہو جاؤں۔
ناصر باغ جرمنی میں مرحومہ کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں محلہ کے کئی جرمن افراد بھی شامل ہوئے۔
آپ کی وفات کے چند دن بعد ایک خاتون نے خواب دیکھا کہ مرحومہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے پاس بیٹھی ہوئی ہیں اور حضورؒ ان سے دریافت فرماتے ہیں کہ زبیر صاحب کب آئیں گے؟ (یعنی مکرم محمد شفیع زبیر صاحب سابق کارکن حفاظت خاص)۔ آپ نے جواب دیا کہ ڈیڑھ ماہ تک آجائیں گے۔ اتنے میں ایک لڑکی ہدیٰ ؔ آکر حضورؒ سے عرض کرتی ہے کہ حضور! ہم چار بہنیں ہیں بھائی کوئی نہیں۔ دعا کریں اللہ میاں ہمیں بھی بھائی عطا فرماوے اور اپنے لئے بھی دعا کی درخواست کرتی ہے۔ اس خواب کے ڈیڑھ ماہ بعد زبیر صاحب اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے۔ پھر ایک سال کے اندر اللہ تعالیٰ نے ہدیٰ کو بھائی سے نواز دیا اور ہدیٰ کی منگنی بھی ہوگئی۔
آپ کو خلافت اور خاندان اقدسؑ کی خواتین سے بہت لگاؤ تھا۔اپنے محلہ دارالعلوم شرقی کی ایک لمبا عرصہ لجنہ کی صدر رہیں۔ جرمنی میں بھی اپنی مجلس کی صدر رہیں۔ آپ کی عادت تھی کہ روزانہ صبح نماز کے بعد صدقہ نکالتیں اور بچوں کو بھی اس کی نصیحت کرتیں۔ پھر یہ رقم قادیان اور ربوہ کے غرباء کو بھجوادیتیں۔
محلہ کے بچے جب امتحان وغیرہ میں کامیابی کے لئے دعا کے لئے عرض کرتے تو آپ کہتیں کہ پہلے دکان سے ایک ڈبل روٹی خرید کر جھیل پر جا کر بطخوں کو ڈال کر آؤ تو مَیں تمہارے لئے دعا کروں گی۔ بچے جب کامیابی کے بعد مٹھائی لے کر آتے تو آپ ذرا سی چکھ کر پھر بچوں میں ہی بانٹ دیتیں اور انہیں نصیحت کرتیں کہ اپنے لئے خود بھی دعا کیا کریں اور حضور کی خدمت میں بھی خط لکھا کریں۔
آپ کو تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ اپنے غیراحمدی رشتہ داروں کو تبلیغ کرنے کی خاطر کئی بار تکلیف دہ سفر اختیار کیا۔ میرے ڈیوٹی پر جانے کے بعد آپ باقاعدہ تبلیغ کی خاطر اپنے ہمسایوں کے ہاں جایا کرتی تھیں۔ امراء اور غرباء سے یکساں ملتیں اور اخلاق اور انکساری سے پیش آتی تھیں اور ہردلعزیز بھی تھیں۔ لاہور میں جب ہم فوج کے کوارٹر میں رہتے تھے تو ہمسائے ایک مولوی صاحب تھے جنہوں نے اپنی بیگم کو ہمارے گھر آنے سے منع کررکھا تھا۔ جب مرحومہ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے خود ہی اُن کی طرف آنا جانا شروع کردیا اور پھر کچھ اس طرح سے احسانات کا معاملہ کیا کہ آخر لمبے عرصہ بعد مولوی صاحب جلسہ سالانہ ربوہ میں شامل ہوئے اور بیعت کرکے واپس گئے۔