محترمہ مریم نواب بیگم صاحبہ
مکرمہ احمدی بیگم صاحبہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍نومبر1997ء میں لکھتی ہیں کہ میری والدہ محترمہ مریم نواب بیگم صاحبہ تعلیم سے بالکل محروم اور ابھی کم سن ہی تھیں کہ ان کی شادی ہوگئی۔ اپنے سسرال میں جب اپنے خاوند محترم کے چھوٹے بھائیوں کو تعلیم حاصل کرتے دیکھا تو خود بھی پڑھنے کی خواہش کی اور جلد ہی اردو پڑھنا اور کسی حد تک لکھنا سیکھ لیا۔ شادی کے کچھ عرصے بعد خاوند نے قبول احمدیت کی سعادت پائی اور انہیں یہ اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ آپ پر کوئی پابندی نہیں ہے، چند کتب یہ رکھی ہیں دل چاہے تو پڑھ لیں۔جب آپ نے انہیں پڑھنا شروع کیا تو درثمین اس قدر پسند آئی کہ اکثر اس کے اشعار گنگناتی رہتیں اور پھر ایک دن احمدیت قبول کرلی۔ اس کے بعد بڑی محنت سے قرآن کریم پڑھنا بھی سیکھا۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کا بھی خوب خیال رکھا اورعام رہن سہن میں بھی یہ پیش نظر رکھتیں کہ لوگ دیکھ کر محسوس کریں کہ یہ ایک احمدی گھرانہ ہے۔ 1938ء میں آپ قادیان منتقل ہوگئیں جہاں نماز جمعہ کی ادائیگی اور قرآن کریم کے درس میں ہمیشہ حتی المقدور باقاعدگی سے شامل ہوا کرتی تھیں۔